مىرےابا جى
از احقر عبد الدىان سلىمى بن حاجى عبد المجىد
احقر جب والد صاحب کى سوانح ترتىب دے رہا تھا اس وقت اچانک دل مىں بار بار اىک تقاضا ہوا کہ اپنى طرف سے بھى کوئى مضمون لکھوں، کىونکہ آج مَىں جو بھى کچھ ہوں اپنے والد کى وجہ سے ہوں۔
حضرت مفتى زىن العابدىن کى اہلىہ کے انتقال کے موقعہ پر فىصل آباد تعزىت کے لئے جانا ہوا وہاں پر اچانک حضرت مفتى عبد الستار بھى تشرىف لے آئے۔ انہوں نے سب سے پہلے احقر سے معانقہ کىا اور فرماىا معلوم ہوتا ہے حضرت حاجى صاحب ؒ کى دعائىں تمہىں لگ رہى ہىں۔ پھر فرماىا تمہارى مصروفىت اور پروگراموں کے متعلق جب مجھے کچھ معلوم ہوتا ہے تو مىرے دل سے ىہ آواز آتى ہے ىہ سب حاجى صاحب کى دعاؤں کا نتىجہ ہے۔ کافى دىر تک والد صاحب کا ذکر ہوتا رہا۔ مىں جب اپنى زندگى جو مجھے ىاد ہے اس کو اور وہ باتىں جن کى وجہ مىرى نادانى ، بے وقوفى اور حماقت ہوتى تھى ان کو سوچ کر اب بہت پچھتاتا ہوں اور والد صاحب کے لئے دل سے دعا نکلتى ہے۔ مىرے اوپر ان کے جو احسان تھے ان کو شمار کرتا ہوں تو بے ساختہ ىہ کہنے پر مجبور ہوتا ہوں کہ باپ ہو تو اىسا شفىق اور اپنى ذمہ دارى کو دىن کا جز سمجھ کر پورى طرح نبھائے۔