فرماىا چائے کى مىرى عادت نہىں ، ہمراہىان چاہىں تو پى لىں اور اگر چائے سادى ہو تو مىں بھى تھوڑى سے پى لوں گا۔ چنانچہ سب کے لئے دودھ کى اور حضرت والا کے لئے سادہ چائے لائى گئى۔ حضرت نے تھوڑى سى پى کر چھوڑ دى اور فرماىا آج چائے کئى سال کے بعد پى ہے۔ مجھے دودھ کى چائے پسند نہىں اور چائے جس کو کہنا چاہئے وہ تو سادى ہى ہے۔ دودھ اور دىگر مصالحہ ڈلنے سے تو اىک نىا مرکب بن جاتا ہے ۔ چائے اس کا نام کىوں رکھا جائے وہ تو اىک دوا ہے جو بطور جوشاندہ کے ہے۔ بعض لوگ بڑے نخرے اور بکھىڑے سے چائے بناتے ہىں ، لاگت بھى بہت لگتى ہے، وقت بھى بہت خراب ہوتا ہے، چائے کا لطف تو اس مىں نہىں رہتا۔ چائے تو سادى ہو اس مىں پانى شىرىنى بقدر مناسب ہو تو اس مىں جو لطف ہے وہ ان بکھىڑوں مىں کبھى نہىں ہوسکتا۔ جب مىں کبھى چائے پىتا ہوں تو اپنے ہاتھ سے بناتا ہوں، دوسرے کے ہاتھ کى بنى ہوئى کبھى نہىں پىتا ہوں۔ کىونکہ اس کا اندازہ خود ہى کو ہوسکتا ہے اس وقت کتنى تىز ہونى چاہئے ۔ چائے سے فارغ ہو کر 9 بجے مکان پر پہنچے۔حسن العزىز
مولانا مشرف على تھانوى کا احقر کومفىد ترىن مشورہ
احقر نے جب والد صاحب کى اس نصحىت کا ذکر اور خط مولانا کو دکھاىا تو مولانا نے فرماىا کہ جب واعظ کا مطالعہ کرو تو جو آىت اس مىں آئے اس آىت کو غور سے دىکھ کر اس آىت کا تفاسىر مىں مطالعہ بھى کىا کرو۔ اسى طرح حدىث کو تلاش کر کے اس کى شرح اور سىاق وسباق پورى طرح دىکھا کرو۔ گو ىہ کام