کى، سارى خرىدارى وغىرہ وہى کرتے تھے۔ لاہور ان کا اکثر آنا جانا رہتا تھالىکن اىسا کبھى نہىں ہوا کہ کاہنہ نہ گئے ہوں۔ بہن بھائىوں سے مل کر آتے۔ احقر جب جامعہ مىں زىر تعلىم تھا اس وقت اکثر اىک رات کا قىام احقر کے پاس ضرور ہوتا۔ پھر ىہ مفتى عبد اﷲصاحب کے پاس ملازم ہوگئے اور حضرت مفتى صاحب کى دوسرى شادى مىں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کىا۔ لىکن انکو ہر وقت دھن مکہ کى ہوتى تھى۔ اﷲتعالىٰ نے ان کى ىہ خواہش پورى کى۔ والد صاحب کى زندگى مىں مکہ مکرمہ تشرىف لے گئے۔ مکہ مىں ہر وہ شخص جو ڈىرہ کا ہوتا اور مولانا کى اس سے سلام دعا ہوتى مولانا کا مکان اس کے لئے حاضر تھا۔ بقول حضرت والد صاحب مولوى فتح محمد مکہ مىں ڈىرہ والوں کے لئے پناہ گاہ ہے۔ ہر آدمى ان کے پاس ٹھہرتا تھا ۔ احقر بھى ان کى قىام گاہ پر گىا ہے لىکن ٹھہرا نہىں، دو چائے کى پتى کے بڑے ڈبے ہدىہ دىئے۔
مولانا فتح محمد صاحب کى کرامت
مولانا کى دلى خواہش تھى کہ مکہ مکرمہ مىں تدفىن ہو۔ اخىر عمر مىں شوگرہ کى تکلىف کافى ہوگئى ، عمر کے لحاظ سے جب کچھ معذور ہوگئے تو ان کا لڑکا محمد مکى ان کو اپنے پاس سعودىہ مىں مکہ سے تقرىباً 200 کلومىٹر دور تھا لے گىا ۔ ىہ اس لڑکے کى سعادت مندى اور خوش قسمتى کہ اس نے اپنے باپ کى خوب خدمت کى۔ مولانا جب مکہ مىں رہتے مکان کا کراىہ مولانا کے تمام اخراجات ىہى لڑکا دىتا تھا۔ جب صحت بگڑى تو اپنے بىٹے سے فرماىا مجھے مکہ دفن کرنا۔ اس نے کہا ابا جى