نام صرف اہل علم کے ہى ہوتے تھے ورنہ جو لوگ ہمارى مىو قوم سے واقف ہىں وہ آج سے تقرىباً سو سال قبل کے ناموں پر بھى غور کرىں۔
والد صاحب نے قرآن پاک کى ابتدائى تعلىم رىواڑى مىں حاصل کى، بلکہ دادا جان نے گھر پر قران کى تعلىم کا انتظام فرماىا۔ حضرت والد صاحب تحرىر فرماتے ہىں:
”ابھى مىں ساتوىں جماعت مىں تھا کہ والد صاحب نے اىک مولوى صاحب کوجو شىعہ تھا اور لڑکوں کو اردو پڑھاتا تھا اسے قرآن شرىف پڑھانے پر لگا دىا۔ اس نے کچھ سپارے کا حصہ اپنى طرز پر پڑھاىا۔ بعد مىں اس کو ہٹا کر قرآن پاک کى صحىح تعلىم کا انتظام کىا“۔
شادىاں
والد صاحب کے تىن نکاح ہوئے:
نکاح اول: 14 شعبان،21 اپرىل 1922ء مىں ہوا۔ موضع بحالہ رىاست الور سے 7 مىل دور پکى سڑک پر اىک گاؤں تھا۔چوہدرى ملا محمد ابراہىم خاں زمىندار کے ہاں شادى ہوئى۔ بارات مىں پچاس آدمى گئے ، اور کوئى رسم رواج ناجائزکام نہىں ہوا۔ معمولى پھولوں کے ہار جو مىرے ماموں نے ڈال دىا تھا وہ بھى مىرے خسر نے اتروا دىئے۔وہ حضرت گنگوہىؒ کے مرىد تھے۔
احقر عرض کرتا ہے اس سے ہمارے نانا صاحب کا دىندار ہونا معلوم ہوتا ہے۔