تھانوىؒ نے مولانا عبد المجىد کو عارف باﷲ کہا تھا۔
حضرت بچھراىونىؒ نہاىت سادہ رہتے تھے۔ فناء فى اﷲاور راضى برضا حضرت کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ والد کى سادگى بھى انتہا درجہ کى تھى۔ ىہ چىز ان کو اپنے شىخ سے حاصل ہوئى۔ اور حضرت والا کا ابا جى سے کتنا تعلق اور محبت تھى کچھ اشارات اىسے ملتے ہىں جس سے ابا جى کو اپنا جانشىن بناىا تھا۔ لىکن ىہ رسم ہمارے سلسلہ مىں نہىں ہے۔ ہاں اشارات کوئى مشکل ہى سمجھتا ہے۔ اس کا اندازہ حضرت کے دو خطوط سے ہوتا ہے۔
حضرت کا پاکستان پہنچنا
حضرت کا خط کسى کے نام :
السلام علىکم ورحمۃ اﷲوبرکاتہٗ!
آج بروز ہفتہ ىکم نومبر۱۹۴۷ ،۱۷/ذى الحجہ بہت کچھ مصائب اور مشکلات جھىلتا ہوا مع اپنے اہل وعىال خانوال ضلع ملتان ڈاکٹر عبد المجىد خاں صاحب کے پاس آگىا ہوں۔ اتفاق سے شب کو آىا ہوں اور دن کے دس بجے کے قرىب آپ کا خط ملا۔ آپ کى اور حضرت حاجى صاحب کى خىرىت معلوم ہو کر تسلّى ہوئى۔ اﷲتعالىٰ ہمىشہ امن وعافىت سے رکھىں اور امن عافىت عطاء فرماتے رہىں اور اىمان واىقان مىں ترقى فرمائىں۔
بس اىک ىہى اىسا سرماىہ ہے جس سے دونوں جہاں کى زندگى بعافىت حاصل ہوتى ہے۔ اىمان کے ساتھ جىنا بھى مبارک، مرنا بھى مبارک۔ىہ نہىں تو زندگى بھى