مولانا عبد المجىد بچھرانوى
مجاز بىعت
مولانا عبد المجىد بچھرانوى ضلع مراد آباد کے راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ بچپن اور جوانى کے آغاز تک ہل چلاتے اور زمىندارہ کرتے رہے۔ اچانک اىک روز گھر سے بھاگ کر انبالہ حضرت سائىں توکل شاہ صاحب کى خانقاہ مىں پہنچ گئے۔ آپ کے گھر والے تلاش کرتے کرتے انبالہ جا پہنچے اور سائىں توکل شاہ صاحب سے عرض کىا کہ ہمارا لڑکا آپ کے پاس آگىا ہے۔ حضرت نے آپ کے مونڈھے پکڑ کر ہلائے اور فرماىا ”ىہ ہمارا مست ہے“ اس بات نے اتنا اثر دکھاىا کہ زمىندارى چھوڑ دىنى تعلىم شروع کر دى اور حضرت گنگوہى ؒ سے بىعت کا شرف بھى حاصل کىا۔ تعلىم کے دوران اپنے استاد کے گھر کا کام کرتے، بچے کھلاتے، آٹا پسواتے اور سخت سے سخت کام کرنے سےبھى درىغ نہ کرتے۔جب سوامى شردھانند نے آگرہ مىں مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لئے شدھى تحرىک کا آغاز کىا تو حضرت تھانوى قدس سرہٗ نے مولانا عبد الکرىم گمتھلوى اور آپ کو تبلىغى کاموں پر مقرر کىا۔ ان حضرات کو تبلىغ کے دوران نہ تو کسى سے کھانا کھانے کى اجازت تھى نہ ہى نذرانہ ىا چندہ وصول کرنے کا حکم تھا اور سوارى لىنے کى بھى ممانعت کر دى گئى تھى۔ آپ نے تبلىغ کے دوران عائد کى گئى تمام پابندىوں کو بخوشى تسلىم کىا اور بىس سال کے قرىب بھرت پور ، الور،