دى تھى عطاء فرماىا ۔ ىہ پتہ نہىں باندھا تھا ىا وىسے ہى دىا تھا، پہلے زمانے کے بزرگوں سے خلافت کے ساتھ دستار کا بھى رواج تھا۔ اور دوسرى حضرت حکىم الامت کى ٹوپى مبارک جو حضرت مولانا عبد المجىد بچھراىونى کو عطا کى تھى انہوں نے والد صاحب کو عطا کى۔ والد صاحب نے ىہ ٹوپى اور رومال احقر کو عطا کىا۔ مىں نے سر نىچے کر دىا اور عرض کىا اس کو سر پر باندھ دىں۔ والد صاحب نے بھائى ہاشم ، ناظم اور دىگر حضرات کے سامنے سر پر لپىٹ دىا اور فرماىا جب سے حضرت مولانا نے ىہ رومال مجھے دىا ہے مىں نے اس کو دھلواىا نہىں کہ حضرت کے ہاتھ اس کو لگے ہىں۔ تم مولوى صاحب اس کو ڈرائى کلىن کرواؤ گے۔ دوسرى ٹوپى کے نىچے جو استر کى پٹى تھى اس مىں کچھ کپڑا لے لىا تھا اور وصىت کى تھى کفنى کے اندر سوئى سے ٹانک دىا جائے۔ الحمد اﷲ! ىہ دونوں چىزىں احقر کے پاس محفوظ ہىں۔
حضرت مولانا مشرف على تھانوى کا احقر کو گھڑنا
مجھے گھڑنے اور کچھ بنانے مىں سب سے زىادہ توجہ اور احقر کى تربىت مىں مولانا مشرف على صاحب مدظلہ کا ہاتھ سب سے زىادہ ہے۔ اور اس کى وجہ بھى حضرت والد صاحب ہى ہىں ۔ ىہاں پر مىں اپنى کوتاہى کا ذکر کردوں مىں کچھ بن تو نہ سکا ہاں ىہ ضرورى ہے کہ والد ماجد اساتذۂ کرام اور مشرف على صاحب نے جس لائن پر لگاىا تھا الحمد ﷲ لنگڑاتا ہوا اس پر اب تک گھسٹ رہا ہوں۔