تھانوىؒ، مولانا عبد المجىد بچھراىونىؒ اور دىگر نورانى چہرے والے حضرات جن کو مىں نہىں جانتا کسى کے انتظار مىں کھڑے ہىں۔ مىں نے حضرت تھانوىؒ سے پوچھا: حضرت آپ کىوں کھڑے ہىں؟ فرماىا ڈاکٹر عبد المجىد صاحب آرہے ہىں ان کے انتظار مىں کھڑے ہىں، مىں فوراً بىدار ہوا ، فوراً دل مىں خىال ہوا کہ ہمارے حضرت کا انتقال ہوگىا۔ مىں پرىشان تھا بچوں کو اُٹھاؤں لىکن خواب کى وجہ سے چپ رہا۔ نىند نہىں آرہى تھى، تہجد کى تىارى مىں مصروف تھا کہ دروازے پر دستک ہوئى ، دل خوف کے مارے ڈوبا جا رہا تھا، دروازہ کھولا سىد غلام اوىس شاہ صاحب کے آدمى نے اطلاع دى کہ حضرت کا انتقال ہوگىا۔، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ“
حضرت ڈاکٹر صاحب کى اىک رواىت
احقر مؤلف عرض کرتا ہے کہ مجھ سے حضرت ڈاکٹر حاجى عبد المجىد صاحبؒ نے غالباً خىر المدارس کى جامع مسجد مىں اىک بار اىک واقعہ حضرت تھانوىؒ کا بىان فرماىا تھا، جو دلچسپ ہونے کے علاوہ افادہ عام کے لئے بھى جىسا کہ ىاد ہے اپنے الفاظ مىں ذکر کىا جاتا ہے۔
اىک روز حضرت حکىم الامت مجدد تھانوىؒ آرام کا وقت ہونے پر اندر تشرىف لے جا چکے تھے کہ اس وقت اىک اجنبى نورانى صورت شخص حضرتؒ کى آرام گاہ مىں داخل ہوئے اور کچھ دىر مىں واپس آکر کہىں چلے گئے (شاىد ىہ