رہے تھے۔ ىہ اپنى جماعت کے لڑکوں کو چِٹ دے کر بھىج دىتے تھے ان کو مرىد کرلىں۔ ابا جى کہتے پہلے مسلم لىگ کى ممبرى کا ٹکٹ لے کر آؤ۔ لڑکے مولوى صاحب کو جواب دىتے انہوں نے ىہ کہا: وہ کہتے ىہ جائز نہىں۔ والد صاحب فرماتے پھر مىں مرىد بھى نہىں کرتا۔ پھر مولانا عبد الرحىم والد صاحب کے ساتھ وابستہ ہوئے اور انہوں نے والد صاحب سے تعلق رکھا۔ ابا جى نے بائىس سال کے بعد مرىد کىا۔ ابا جى جب خانىوال سے ملتان منتقل ہوئے تو انہىں کے مکان مىں قىام ہوا بہت خوبىوں کے مالک تھے۔ والد صاحب کے ساتھ ڈىرہ غازىخان گئے تھے ۔ اىم بلاک کى مسجد مىں عصر سے پہلے دل کا دورہ پڑا اور شہادت کى موت حاصل ہوئى۔ والد صاحب پر ان کے انتقال کا بڑا اثر تھا۔ ان کے انتقال کے فوراً بعد ان کے ورثاء سے مکان کا کراىہ مارکىٹ رىٹ سے مقرر کروا کر اىڈوانس دىا۔
مولانا کا اىک اور واقعہ
ہمارى چھوٹى بہن جس کا نام خدىجہ تھا ،عبد الخالق سے بڑى تھى وہ بىمار ہوئى والد صاحب ڈىرہ غازىخان تھے علاج وغىرہ بڑا کراىا ،حاجى انوار الٰہى صاحب نے بہت بھاگ دوڑ کى ، بڑے بڑے ڈاکٹروں کو دکھاىا لىکن اس کا وقت موعود آچکا تھا اور انتقال کر گئى۔ والد صاحب کو اطلاع کى گئى اور وہ وہاں سے روانہ ہوگئے لىکن اس وقت ملتان اور ڈىرہ کا سفر تقرىباً ۸،۷ گھٹنے مىں طَے ہوتا تھا۔ مولانا صاحب نے کہا جنازہ تىار ہے اب اس مىں دىر نہىں کرنى چاہئے۔ اور زور دے کر جنازہ اُٹھوا دىا۔ والد صاحب کا انتظار نہىں کىا۔ نماز جنازہ مولانا خىر محمد صاحب نے خود پڑھائى۔