بىعت حضرت اقدس مولانا اشرف على صاحب
حضرت والد صاحب کى حضرت تھانوى سے بىعت کى تارىخ کا تو علم نہىں لىکن اس کى جو تفصىل احقر نے والد صاحب سے سنى ہے اس کو تحرىر کرتا ہوں۔
لىکن اس سے پہلے والد صاحب کا حضرت بچھراىونى سے تعلق کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ تھانہ بھون کى پہلى حاضرى 1929ء مىں ہوئى۔ لىکن چونکہ حضرت والد صاحب کا اس سے قبل تعلق مولانا عبد المجىد بچھراىونى سے تھا ، حضرت بچھراىونى رىواڑى مىں والد صاحب کے مکان مىں قىام پذىر تھے۔ بلکہ ان کو رىواڑى لانے کىلئے سب سے زىادہ محرک والد صاحب تھے۔ انہوں نے اىک دن والد صاحب کو بلاىا، کىونکہ والد صاحب سے اکثر خطوط کے جوابات لکھواىا کرتے تھے اس دن حضرت تھانوى کے نام اىک اصلاحى خط لکھواىا جس مىں حضرت تھانوى کے مواعظ کا مطالعہ وغىرہ کا لکھواىا اور بىعت کى درخواست کى۔ پھر فرماىا اس کے نىچے چاہے اپنا نام لکھ دو ىا مىرا۔ والد صاحب فرماتے ہىں مىں سمجھ گىا ىہ مىرى بىعت کى درخواست ہے۔ مىں اسے لے کر اور حضرت بچھراىونى کا خط لے کر تھانہ بھون گىا۔ ىہ خط ان کا مىرے متعلق تھا۔ حضرت تھانوى نے دونوں خطوں کو پڑھ کر فرماىا مغرب کے بعد بىعت کروں گا۔
اىک اور صاحب کو اسى وقت بىعت کا کہا تھا۔ حضرت والا کا حکم تھا کوئى بھى شخص اس طرح انتظار نہ کرے جس سے مجھ کو کوفت ہو بلکہ اس طرح مىرے قرىب رہىں جب مىں آواز دوں تو فوراً حاضر ہوجائىں۔ والد صاحب قرىب ہى تھے