ہى مشفقانہ تھا، بلکہ وہ والد صاحب کا بہت خىال فرماتے تھے۔ والد صاحب نے جب ان سے اپنا مدعا بىان کىا تو حضرت مولانا خىر محمد صاحب نے فوراً آدمى بھىجا اور حضرت قارى رحىم بخشؒ صاحب کو بلاىا۔ حضرت قارى صاحبؒ عصر کى اذان سے آدھا گھنٹہ پہلےسائىکل اپنى مسجد مىں تشرىف لے جاتے تھے ۔اور ان کى سائىکل ان کے شاگرد مندر مىں جو قارى صاحب کى درسگاہ تھى اس مىں اىک طرف کھڑى کر دىتے تھے۔ جب جانے کا وقت ہوتا تو کوئى طالب علم سائىکل کو اتار کر اس کى جھاڑ پونچھ کر دىتا ۔ طالب علم سائىکل جانے کے لئے تىار کر کے پکڑ کے کھڑا تھا ، مدرسہ کا دار الاہتمام نلکہ کے ساتھ والا کمرہ مىں تھااس سے مندر صاف نظر آرہا تھا۔ حضرت قارى صاحب فوراً دار الاہتمام مىں تشرىف لائے ، والد صاحب کو قارى صاحب بہت اچھى طرح جانتے تھے۔
احقر کى بسم اﷲ
حضرت مہتمم صاحب نے فرماىا ڈاکٹر صاحب کے ىہ لڑکے ہىں قرآن شرىف درجہ حفظ مىں پڑھىں گے، آپ تھوڑى سى تلاوت فرما کر ان کى بسم اﷲ کرا دىں۔ قارى صاحب نے تلاوت فرمائى اور اس کے بعد بسم اﷲ الرحمن الرحىم کے بعد الف با کى تختى احقر کو کہلوائى۔ پھر حضرت مولانا خىر محمد صاحب نے دعا کرائى۔
مجھے اب معلوم ہوتا ہے ىہ کتنا بڑا مىرے لئے اعزاز تھا ورنہ داخلہ تو اس طرح ہوتا حضرت مہتمم صاحب کاغذ پر لکھ دىتے اس کو فلاں استاد کے پاس بھىج