فيض المجيد
علوم کى دو قسمىں ہىں: علوم مکاشفہ اور علوم معاملہ۔ حضرا ت پىغمبرانِ دىن اور ان کے متبعىن کاملىن جىسے حضرات مجتہدىن ،حضراتِ صحابہ ىہ تو ہمىشہ علوم معاملہ مىں کامل اور اکمل ہوتے ہىں اور ان کو انکشاف بھى علوم معاملہ ہى کا ہوتا ہے اور ىہى علوم منجانب اﷲ مشىت وحى سے ہوتے ہىں۔اور ىہى علوم معاملہ امت کے معمول بہا ہوتے ہىں۔ رہے علوم مکاشہ سو ىہ از روئے شرع نہ معمول بہا ہىں اور نہ ىہ کمالات مىں شمار کئے جاتے ہىں۔ اکثر اوقات تو دماغى اختراع ہوتا ہے، بعض مرتبہ کشف اور الہام ان کا منشأ ہوتا ہے۔ اگر شرىعت ان کو قبول کر ے فبہا ورنہ قابلِ رد ہىں اور کسى طرح التفات کے قابل نہىں ۔ اور طرح ىہ ہے کہ عوام الناس اور صوفىہ جہّال نے انہىں کمال سمجھ رکھا ہے ۔ علوم معاملہ سے کوسوں دور ہىں اور کمال تو کىا بلکہ علوم معاملہ کو خارج از تصوت سمجھ رکھا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے اىسے لوگوں کى حالت پر رووىں، جن چىزوں کو ىہ جبال کمال سمجھتے ہىں ىہ کمالات بہائم کو بھى حاصل ہىں۔
غرض ىہ ہے کہ علوم معاملہ مقصود بالذات ہىں اور علوم مکاشفہ مقصود بالغىر بھى نہىں۔ چونکہ علوم معاملہ ان کو کہتے ہىں جن پر ترتب رضا حق کا ہو جو معاملات بىن اﷲ و بىن العبد ہىں وہ صحىح ہوجائىں۔
حضرت مولانا عبد البارى ندوى کے خط کا جواب
حضرت مولانا عبد البارى ندوى نے حضرت تھانوىؒ کى وفات کے بعد حضرت بچھراىونى سے اصلاح کا تعلق قائم کىا تھا ان کے کئى خطوط ہىں ان مىں سے اىک کا جواب جو