مولانا مشرف صاحب کى شفقت کى وجہ
جامعہ اشرفىہ 1967ء احقر کا پہلا سال تھا۔ درجہ شرح وقاىہ تھا ، شرح وقاىہ ، مقامات، ترجمہ قرآن پاک ىہ تىن اسباق مولانا کے پاس تھے۔جب پہلا سبق شروع ہوا مولانا کى جوانى کا عالم تھا۔ مولانا نے اپنے داہنى جانب سے طلباء سے تعارف شروع کىا۔ جس مىں تىن سوال تھے(۱)کىا نام ہے(۲) پہلے کون سے مدرسہ مىں پڑھا (۳) کس جگہ سے آئے ہو۔
جب مىرى بارى آئى مىں نے اپنا نام بتاىا، ملتان کا ذکر، خىر المدارس اور ڈىرہ غازىخان کا نام لىا۔ مولانا نے فوراً فرماىا تم حضرت ڈاکٹر عبد المجىد کے لڑکے تو نہىں ہو؟ مىں نے کہا جى ہاں! بس پھر کىا تھا شفقت اور محبت شروع ہوگئى۔ اپنے کمرے کى چابى مىرے حوالہ کى تم اس مىں رہائش رکھنا۔ دوپہر کى چھٹى کے بعد جامعہ سے سائىکل پر رنگ محل اىک پرانى کتابوں کى دوکان پر جاتے اور مجھے ساتھ لے جاتے، کتابىں چھانٹتے۔ مجھے بتا دىتے اس نام ، اس مصنف کے نام کى کتابىں علىحدہ کرنا۔ بعد مىں رىڑھى سے بسکٹ لے کر دوپہر کے کھانے کى جگہ کھاتے اور واپسى جامعہ تک سائىکل پر ہوتى۔ ظہر کے بعد ترجمہ کا سبق۔ اﷲتعالىٰ نے حضرت کو ان کى محنت اور نسبت کا خوب ثمرہ عطا فرماىا ہے۔ اﷲتعالىٰ مولانا کو عافىت کے ساتھ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ دار العلوم اسلامىہ کے مہتمم شىخ الحدىث وفاق المدارس کے مالىات کے نگران جمىعت تعلىم القرآن کے صدر اور مجلس صىانۃ المسلمىن کے ناظم ہىں۔ مىں نے بھى اپنى