کافى دن جارى رہا۔ پھر اىک موقع اىسا آىا کہ دىوبند مىں گاندھى جو ہندؤوں کا بڑا لىڈر تھا دىوبند آىا۔ اور اس وقت طلباء اور کچھ اساتذہ نے اس کا استقبال کىا۔ حضرت تھانوىؒ کو جب اس کا علم ہوا تو بہت افسوس کىا اور اىک پرچہ چھوٹا سا لکھ کر دىوبند بھىجا کہ مدرسہ کے دروازے پر لگا دىا جائے جس مىں ىہ مضمون تھا کہ:
”جن حضرات نے گاندھى کے استقبال مىں شرکت کى ہے ان کى زىارت سے اپنے آپ کو محروم کرتا ہوں“فقط اشرفعلى
اس کے بعد سے حضرت کے ىہاں تھانہ بھون مىں آمد و رفت کچھ کم ہوگئى۔ بعد مىں مولانا حسىن احمدؒ کو جىل بھىج دىا گىا۔ اور جب حضرت تھانوىؒ کا انتقال ہوا تو حضرت مدنىؒ جىل مىں تھے۔ واپس آکر پوچھا کہ کون کون تھانہ بھون گىا تھا۔ عرض کىا کہ مجلس شورىٰ ہو رہى تھى اس لئے حاضرى کم رہى۔ فرماىا کہ شورىٰ اپنى جگہ تھى لىکن وہاں جانا ضرورى تھا۔
حضرت تھانوىؒ کو قتل کى دھمکى
غالباً 1937ء ىا 1938ء کا واقعہ ہے کہ دہلى مىں اىک مولوى مظہر الحق صاحب شىر کوٹى فاضل دىوبند تھے۔ وہ دہلى سے اخبار روزنامہ ”الامان“ نکالا کرتے تھے۔ اس مىں کانگرىس کے خلاف مضامىن لکھا کرتے تھے۔ اىک دن پنجاب کى طرف سے دو آدمى گئے جنہوں نے برقع پہن رکھا تھا ، شىر کوٹى صاحب اپنے دفتر مىں کام کر رہے تھے، انہوں نے چھروں سے ان پر حملہ کر دىا اور بھاگ گئے۔ حملہ آوروں نے کہا کہ تو علماء کو گالىاں دىتا ہے اس لئے ہم تجھ کو