حضرت والد صاحب کے اسفارِ حج
حضرت والد صاحب کو حج پر جانے کا بہت شوق تھا۔ لوگ جب والد صاحب سے ىہ پوچھتے آپ نے کتنے حج کئے ہىں؟ تو فرماتے چکر تو اتنے ہوئے اب دىکھو قبول کتنے ہوتے ہىں۔ افسوس کہ اس تحرىر کے وقت سوائے دو حضرات مولانا رشىد احمد صاحب ڈىرہ غازىخان جو ہمارے گھرمىں شاہ جمالى والے مشہور تھے اور انہوں نے وعدہ بھى کىا ہوا ہے کہ تحرىر کروں گا جب ان کى تحرىر آجائے گى وہ مستقل اس کتاب کا جز بن جائے گى۔
دوسرى شخصىت حافظ محمد ابراہىم صاحب کى جنہوں نے غالباً والد صاحب کے ساتھ حج کىا اور ىہ حج والد صاحب کا آخرى حج ہے۔
پہلا حج
ىہ حج ہندوستان سے 1935ء مىں کىا۔ اس حج کى اىک تو خاص بات ىہ ہے کہ والد صاحب نے ىہ سفر حج حضرت مولانا محمد الىاس ؒ کى معىت مىں کىا۔ اور اس سفر حج کى مدت تقرىباً چھ ماہ کى بنتى ہے۔ اسى حج مىں مولانا عبد الماجد درىا آبادى نے کہا تھا مجھے حج کے اىام مىں رونا نہىں آتا۔ والد صاحب نے ان کو جواب دىا مولانا! ىہ اختىارى ہے ىا غىر اختىارى؟ مولانا فوراً سمجھ گئے ۔ ابا جى ؒ نے ىہ بات حضرت مولانا عبد المجىد صاحب کو بتائى۔ انہوں نے حضرت تھانوىؒ کو بتائى جس پر حضرت تھانوىؒ نے فرماىا تھا ڈاکٹر صاحب نے شىخ طرىقت والا کام