مىں تھانہ بھون لے گئے اور جب ىہ کتاب چھپ کر تىار ہوئى تو حضرت قدس سرہٗ نے اسے اپنے سر پر رکھ کر فرماىا کہ مىرى کوئى کتاب اتنى اچھى اور مىرى مرضى کے موافق نہىں چھپى ہے۔ مولانا عبد المجىد صاحب کو ىہ بھى فرماىا کہ اىک چھوٹا سا پرچہ اشتہار کى صورت مىں چھپوا لو مىں اپنے خطوط مىں رکھ دىا کروں گا۔ ىہاں ىہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت قدس سرہٗ کى عادت ىہ تھى کہ اگر کوئى کتاب کا پتہ پوچھتا تو کبھى اس کو سفارش نہ کرتے کہ فلاں کتب خانے خرىدو اور ىہ فرماتے کہ لوگ اس کو ترجىح سمجھىں گے۔
حضرت تھانوىؒ سے تعلق
علمِ دىن سے فراغت پر آپ نے تھانہ بھون مىں مستقل رہائش اختىار کر لى جو کم و بىش تىس سال جارى رہى ۔ آپ نے خانقاہ مىں ذکر اس قدر کثرت سے کىا کہ دوسرے پىر بھائى کہتے تھے کہ ىہ پاگل ہوجائىں گے۔ حضرت تھانوى نے 1325ھ مىں خلافت سے نوازنے کے ساتھ ساتھ وعظ کرنے کى بھى اجازت مرحمت فرمائى تھى۔ جب حضرت قدس سرہٗ نے سفر کرنا بند کر دىا تو حضرت وعظ کے لئے آپ ہى کو بھىجا کرتے تھے۔
مولانا عبد المجىد صاحب نے حضرت گنگوہى کى وفات کے بعد حضرت تھانوىؒ سے تعلق قائم کىا اور راہِ سلوک مىں خوب محنت و مشقت کى۔ آپ کو کشف بہت ہونے لگا تھا ىہاں تک کہ معمولى جڑى بوٹى بھى بولتى تھى کہ مىں فلاں بىمارى کا علاج ہوں۔ آپ نے اىک کاپى لے کر اس مىں اپنے کشف اور جو