مقامات، ترجمہ قرآن پاک، قطبى وغىرہ پڑھى۔
ملتان واپسى
پھر احقر کو والد صاحب نے ملتان بلا لىا اور مفتى عبد اﷲصاحب کے حوالہ کىا۔ لىکن ان کى شرط ىہ تھى کہ مىں ہر وقت سفر حضر مىں ان کے ساتھ رہوں جب وقت ملے گا پڑھا دىا کروں گا۔ ىہ بہت ہى مشکل کام تھا۔ لىکن والد صاحب کا حکم تھا اس لئے اىک سال بہت ہى مجاہدہ کرنا پڑا ىا مجاہدہ کرواىا۔ بہر حال ان مجاہدات کے بعد مىرے شىخ نے مجھ سے کوئى مجاہدہ نہىں کراىا بلکہ نہاىت ناز و راحت کے ساتھ مىرى تربىت کى۔ مىرى مراد حضرت مسىح الامت مولانا مسىح اﷲخان جلال آبادى ہىں ۔ مىں اگر خط مىں اپنى پرىشانى کا لکھتا تو فرماتے پرے کو پرے کر دو شان باقى رکھو۔ کبھى فرماتے تمہىں غم کى کىا ضرورت ہم جو موجود ہىں، والد صاحب کے انتقال کى اطلاع دى اور اپنى بے چىنى کا ذکر کىا تو اس کا جواب جو تعزىت کى صورت مىں آىا وہ عجىب تھا جس کا خلاصہ تھا عارضى جدائى، حکم خداوندى اہل علم پھر ىہ حالت۔
والد صاحب کى جامعہ اشرفىہ مىں بطور ناظم تقررى
جامعہ کے محتسبِ اعلى پىر جى عبد اللطىف تھے جو حضرت مفتى صاحب کے خلىفہ اجل تھے ۔ انہوں نے حضرت مولانا خىر محمد صاحب سے درخواست کى کہ کوئى اىسا آدمى جو حضرت تھانوىؒ کے مسلک کا ہو وہ جامعہ کى نظامت کىلئے