عظىم بىگ کى کوٹھى پر تھا۔ وہاں والد صاحب کى اکثر مجالس ہوتى رہتى تھىں۔ ڈاکٹر تنوىر احمد صاحب بھى ساتھ تھے لىکن جلدى واپس آ گئے۔ اىک دن ہمارے مىزبان نے ہمارى سىر کا رکھا تھا ہنّہ جھىل وغىرہ کا ۔ ہم نے والد صاحب کو باغ مىں ٹھہرا دىا۔ جب ہم واپس آئے تو والد صاحب کے پاس خوبانىوں کا ڈھىر لگا ہوا تھا۔ کہنے لگے تمہارے بعد ان بچوں نے خوبانىوں کا ڈھىر لگا دىا کہ کھاؤ اب مىں کتنى کھاتا ۔ بذرىعہ کوئٹہ اىکسپرىس واپسى ہوئى ۔ والد صاحب ملتان اتر گئے ہم لاہور واپس آگئے۔
سفر گجرات
احقر جب گجرات مىں سوىڈش کالج مىں خطىب تھا تو والد صاحب پنڈى اخوند مظفر قىوم مرحوم کے پاس تشرىف لے گئے تھے۔ وہاں سے واپسى پر گجرات تشرىف لائے۔ تقرىباً چار ىوم قىام رہا۔ اس کے بعد 1980 ىا 1979 چونکہ رمضان شرىف گرمى مىں تھا گجرات کا موسم ملتان سے بہتر تھا احقر نے اعتکاف گجرت مىں کرنے کى درخواست کى جو قبول فرمالى۔
17/رمضان المبارک کو گجرات پہنچے۔ احقر نے اور بھائى محمد ہاشم نے لاہور کے اسٹىشن پر استقبال کىا۔ احقر لاہور سے والد صاحب کے ساتھ گجرات آىا تاکہ گجرات تک سفر مىں کوئى پرىشانى نہ ہو۔ کالج کى کالونى اور سروس فىکٹرى کے جو لوگ جمعہ کىلئے آتے تھے اور وہ والد صاحب کى مجلس مىں بىٹھتے تھے بہت مستفىد ہوئے۔ مولانا محمد قاسم صاحب بھى اعتکاف مىں تشرىف لے آئے۔