تھے اور خواجہ صاحب کا ىہ شعر پڑھ رہے تھے ؎
مرا نقشِ ہستى نہىں مٹنے والا
مىں نے کہا ابا جى خواجہ صاحب کا شعر آپ پڑھ رہے ہىں۔ فرماىا تم کىا جانو خواجہ صاحب، ىہ جملہ دو تىن دفعہ دہراىا، تم کىا جانو خواجہ صاحب، تم کىا جانو خواجہ صاحب۔
احقر نے جب والد صاحب کى بىاض مىں خواجہ صاحب کے ىہ دو شعر دىکھے تو واقعى پتہ چلا ہمىں خواجہ صاحب کے مرتبہ کا کىا علم ۔ وہ دونوں شعر تحرىر کرتا ہوں جس سے ان کے رتبہ اور مرتبہ کا پتہ چلتا ہے۔
/
اسى وقت والد صاحب اچانک اپنے پلنگ سے اترنے لگے۔ بھائى ہاشم سہارا دے کر بىٹھے تھے ۔ مىں نے پوچھا ابا جى! کہاں جا رہے ہىں؟ کہا نماز پڑھنے کىلئے۔ مىں نے کہا ابھى وقت نہىں ہوا۔ تھوڑى تھوڑى دىر کے بعد ىہ عمل دہراىا۔ مىں نے بھائى ہاشم کو کہا جب تک نماز نہىں ادا کرىں گے ان کو سکون نہىں ہوگا۔ بھائى ہاشم نے والد صاحب کو باتوں مىں لگاىا کبھى مذاق کى بات کرتے تو مسکراتے لىکن بے چىنى بڑھتى جارہى تھى۔