مىں جواب کا انتظار کر رہا ہوں۔ مىں نے روتے ہوئے دفتر بند کىا تو سامنے رشىد مرتضىٰ قرىشى صاحب مىرے پاس آرہے تھے۔ مىں نے ان سے سب سے پہلے سوال کىا آپ فارغ ہىں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ مىں نے ان کو سارى صورتِ حال سے آگاہ کىا اور کہا آپ انار کلى پہنچىں۔ احقر کے تىنوں بچے پڑھنے گئے ہوئے تھے ۔ ان کى خالہ کو ساتھ لىا کہ وہ بچوں کو لے کر اپنے گھر آجائىں۔ اہلىہ کو ساتھ لىا اور قرىشى صاحب کى گاڑى مىں ائر پورٹ روانہ ہوئے۔ اس وقت موبائل فون کى سہولت نہىں تھى۔ ائر پورٹ پر پہنچے تو انہوں نے کہا چانس پر ٹکٹ ہے۔ قرىشى صاحب نے ان صاحب سے انگرىزى مىں بات کى ہم ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوگئے۔ ٹکٹ کنفرم ہوگىا۔ جہاز دس بج کر چالىس منٹ پر وانہ ہونا تھا۔ اندر لاؤنج سے ارشد صاحب کو فون کىا ان کو سارى صورت حال سے آگاہ کىا، جہاز کا ٹائم بتاىا۔ اﷲتعالىٰ ان کو جزائے خىر عطا فرمائىں وہ گاڑى لے کر ائر پورٹ پہنچے ہوئے تھے اور ہمىں لے کر سىدھے ہسپتال پہنچے۔ اور کہا مىں صرف تمہارے لئے رُکا ہوا تھا تھوڑى دىر مىں واپس لاہور جارہا ہوں۔
والد صاحب سے ملا بہت خوش ہوئے۔ عبد الخالق سے کہا بھائى کے ناشہ کا انتظام کرو۔ جمىلہ کے بھى سر پر ہاتھ رکھا اور فرماىا تم آگئى۔ چلو اچھى بات ہے۔ لىکن طبىعت مىں بے چىنى کافى تھى۔ اپنى چارپائى سے دوسرى چارپائى تشرىف لے آئے تھے۔ جب اُٹھنے کا ارادہ کرتے تو بھائى ہاشم سہارا دے کر بٹھا دىتے۔ اور خود ان کے پىچھے ٹىک بن جاتے ۔ بھائى ہاشم کے سہارے بىٹھے ہوئے