آجاؤں گا۔ خوشى سے اجازت دى اور دعا بھى دى خىرىت سے جاؤ اور خىرىت سے واپسى ہو۔ منگل کے دن مىرى لاہور روانگى تھى، بدھ کو واپسى تھى۔ والد صاحب نے خود فرماىا اىک دن آرام کر کے واپس آنا۔ احقر نے مسلسل ٹىلىفون سے بھائى صاحبان سے رابطہ رکھااور ہر فون پر اچھى خبر ملتى رہى۔ وضو کى اجازت ہوگئى ۔ مجھے فون پر بھائى ہاشم نے بتاىا ابا جى کى حالت بالکل ٹھىک ہے کوئى فکر کى بات نہىں۔ احقر بھائى ہاشم کے ذرىعہ سے اباجى سے اجازت لى کہ مىں جمعرات کو جمعہ کا انتظام کر کے آجاؤں۔ والد صاحب نے بخوشى اجازت دى۔ بھائى ہاشم صاحب سے فرماىا شاىد جمعہ کو ىا ہفتہ کو چھٹى مل جائے۔ مىں بہت خوش اور بے فکر ہوگىا۔ جمعرات کو دوپہر سے پہلے ملتان جانے کا پروگرام طَے کر لىا۔ مىں گھر پر کہہ کر گىا مىرے کپڑے دو جوڑے تىار رکھنا مىں جامعہ سے واپسى پر ملتان جاؤں گا۔
صبح جب جامعہ کے دفتر مىں موجود تھا کہ ٹىلىفون کى گھنٹى بجى۔ دفتر کے خادم نے ٹىلىفون اُٹھاىا اور اس نے مىرے حوالے کر دىا۔ دوسرى جانب بھائى عباس تھے ، آواز گھبرائى ہوئى تھى اور بتاىا کل شام سے والد صاحب کى طبىعت کافى خراب ہوگئى اور تمہىں ىاد کر رہے ہىں۔ احقر نے جواب دىا مىں انشاء اﷲ ابھى روانہ ہوتا ہوں۔ مجلس کے دفتر مىں گىا وہاں ٹىلىفون آىا دوسرى جانب ارشد عبىد صاحب تھے وہ وہاں اپنے ماموں کے پاس گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا والد صاحب کى طبىعت ٹھىک نہىں تم فوراً پہنچو۔اور اپنا ملتان کا نمبر دىا