مجھے کہا نماز پڑھاؤ۔ ابا جى نے تکبىر پڑھى۔ مىرى اپنے والد صاحب کے ساتھ آخرى نماز تھى۔ نماز کے بعد سنتىں نہاىت اطمىنان سے پڑھىں۔ اور کافى دىر مىں اور ابا جى دعا مانگتے رہے۔ مىرى تو دعا ىہ تھى اﷲتعالىٰ آپرىشن کامىاب کر دے اور والد صاحب کا ساىہ ہمارے سروں پر تادىر عافىت کے ساتھ قائم رکھىں۔ تھوڑى دىر مىں عملہ والد صاحب کو آپرىشن تھىٹر مىں لے گىا اور احقر باہر بىٹھا رہا۔ وقت بوقت بھائى ہاشم، عبد الخالق، بھائى ناظم چکر لگاتے رہے۔ آپرىشن مىں تقرىباً دو گھنٹے لگے اور دو ہى گھنٹہ انہوں نے آئى سى ىو مىں رکھا۔گىارہ بجے کے قرىب کمرہ مىں منتقل کىا۔ اس وقت والد صاحب نىم بے ہوشى کے عالم مىں تھے، گلوکوز کى بوتل لگى ہوئ تھى۔رات بارہ بجھے کے قرىب فرماىا مجھے سردى لگ رہى ہے۔ دوسرا کمبل ڈالا گىا۔ ڈاکٹر کو اطلاع دى انہوں نے آکر چىک کىا، کہا ىہ معمول کى سردى ہے کوئى گولى وغىرہ دى۔ فجر کى نماز تىمم کے ساتھ ادا کى، طبىعت ما شاء اﷲ ٹھىک تھى۔ ظہر سے پہلے ڈاکٹروں نے بٹھاىا ، طبىعت ماشاء اﷲ بہت اچھى تھى۔ اس دن بھى نمازىں تىمم اور اشارہ سے ادا کىں۔ پىر کے دن کچھ ٹانکے کاٹے ۔ ما شاءﷲ طبىعت کافى بہترى کى طرف مائل تھى۔ ىختى دلىہ کھانا شروع کر دىا تھا۔
مجھے لاہور سے فون آىا مسجد کے مؤذن کے ساتھ کوئى مسئلہ ہوگىا معاملہ پولىس تک چلا گىا ہے۔ مجھے فوراً لاہور جانا پڑا۔ مىں بارہ بجے والے جہاز سے لاہور آگىا اور والد صاحب کو بتا کر آىا کہ مىں انشا ء اﷲ دوسرے دن واپس