وقت کىا کر رہے ہىں۔ کہا فوج مىں امامت و خطابت سے رىٹائر ہوچکا ہوں اب فارغ ہوں۔ مىں نے اس سے کہا تم مجھ سے زىادہ قابل تھے، حافظ قارى تھے تم نے اپنى عمر کىوں ضائع کى، امامت اور خطابت تو بہر حال مل ہى جاتى۔ تو اس نے جو جواب مجھے دىا اس نے مىرى آنکھىں کھول دىں۔ کہنے لگا ىہ ٹھىک ہے مىں لائق تھا ، قابل تھا قارى و حافظ تھا لىکن مىرا باپ ڈاکٹر عبد المجىد نہىں تھا، تمہىں جو نسبت حاصل ہے وہ نسبت مىں کہاں سے لاؤں۔ مىں نے جب اس پر غور کىا تو واقعى والد صاحب کى نسبت کى وجہ سے مىں اس لائق ہوا ؎
ىوں تو خدا کے بندے ہىں لاکھوں
بن مىں پھرتے مارے مارے
خىر ىہ بات کہاں سے کہاں پہنچ گئى۔ اس دن دوپہر تک بھائى ہاشم ، ناظم اور تىنوں بہنىں بھى ملتان پہنچ گئىں۔ ڈاکٹر صاحب نے مغرب کے بعد آپرىشن کا ٹائم دىا۔ ابا جى نے فرماىا تم سب کمرہ مىں رہو ، آپرىشن تھىٹر کے باہر زىادہ رش نہ کرىں۔ مولوى صاحب ىعنى احقر ساتھ ہوگا ۔ مىں سارے کاغذات اور رپورٹىں لے کر ابا جى کو ساتھ لے کر آپرىشن تھىٹر کے قرىب پہنچ گىا۔ جانے سے پہلے والد صاحب نے وضو کىا اور مجھے بھى وضو کا حکم دىا۔ فرماىا مغرب کى نماز پڑھ لو اور آپرىشن والوں کو کہہ دىں ہم باہر نماز پڑھ رہے ہىں۔ مىں نے ابا جى کى رپورٹىں ٹىکے وغىرہ آپرىشن روم مىں پہنچا دىئے۔ ۔ مغرب کى اذانىں شروع ہوچکى تھىں۔ والد صاحب نے کافى عرصہ سے امامت چھوڑ رکھى تھى ۔