مجذوب ؎ دل ربا پہلوسے اٹھ کر اب جدا ہونے کو ہے
دل مىں اىک بے چىنى اور اضطراب سا تھا۔ جمعہ کے دن شام کے جہاز سے اپنى سىٹ بک کرائى ۔ اتفاق سے اس دن اکانومى کلاس مىں جگہ نہىں ملى مجبوراً بزنس کلاس کى ٹکٹ لىنى پڑى۔
جمعہ کى نماز سے فارغ ہو کر ملتان کىلئے روانہ ہوا۔ عصر سے کچھ دىر پہلے جہاز چلا ،عصر کى نماز ملتان ائر پورٹ پر ادا کى۔ ابا جى کو اطلاع کر دى تھى ۔ ملتان اپنا گھر تھا پھر بھى نہ معلوم کىوں چھوٹے بھائىوں کو ائر پورٹ بھىج رکھا تھا۔ ان کے ساتھ گھر روانگى ہوئى۔ مغرب کے قرىب گھر پہنچا۔ سلام دعا معانقہ سے فارغ ہو کر چائے کا پوچھا ، صرف اىک پىالى چائے بنوائى، پھر اپنى وصىت اور دىگر وصىتىں احقر کو دىں۔ کچھ نصىحتىں اور کچھ کام سمجھاىا۔ مىں غور سے سمجھتا رہا۔ وہ رات والد صاحب کے ساتھ گذارى۔ کاہنہ مىں سب کو اطلاع ہوچکى تھى وہ سب چلتن سے ملتان پہنچنے والے تھے۔ اس رات احقر کو نىند نہىں آرہى تھى۔ قبلہ والد صاحب بھى دىر تک جاگتے رہے۔ خاص طور پر فرماىا ہسپتال کى چادرىں پتہ نہىں پاک ہوتى ہىں ىا نہىں اس لئے اس بستر پر اپنى گھر کى پاک چادر بچھا دىنا تاکہ نماز صحىح ہو۔
تقرىباً صبح دس بجے کے بعد انوار صاحب کى گاڑى آگئى۔ والد صاحب نے گھر سے نکلنے سے پہلے دعا مانگى۔ ہم سب بھائى جو اس وقت موجود تھے اور والدہ صاحبہ دعا مىں شرىک ہوئے ۔ والد صاحب احقر، عبد القادر، عبد الخالق