اکتوبرتھىں۔ والد صاحب کى طرف سے اجتماع مىں شرکت کى اطلاع آچکى تھى لىکن قدرت کو کچھ اور ہى منظور تھا۔ احقر اجتماع کى تىارى اور ابتدائى ڈاک کے کام مىں مصروف تھا۔ احقر کى رہائش اس وقت انار کلى مىں تھى۔ احقر صبح کو جب جامعہ مىں آتا موٹر سائىکل کھڑى کر کے پہلے جامعہ کے دفتر مىں جاتا ، ڈاک وغىرہ دىکھتا اور پھر مجلس کے دفتر مىں بىٹھتا تھا۔ پہلے جو سبق ذمہ تھے ان کو پڑھاتا ، مىں ابھى سبق پڑھا رہا تھا ٹىلىفون کى گھنٹى بجى۔ دوسرى جانب ابا جى کى آواز ۔ سلام و دعا کے بعد فرماىا مىں نے آپرىشن کا فىصلہ کر لىا ہے لىکن ىہ ملتان مىں اىک پرائىوىٹ ڈاکٹر کے کلىنک مىں ہوگا، ہفتہ کا دن ہوگا تم اپنے کاموں سے فراغت کے بعد جمعہ کى شام تک ہر حالت مىں ملتان پہنچ جاؤ۔ پىسوں کا انتظام بھى کر کے لانا جو تقرىباً پانچ ہزار روپىہ ہوں۔ مىں اىک خط بھى آج تمہىں لکھ رہا ہوں۔وہ خط بجائے اس کے کہ مىں نقل کروں اس کا عکس شائع کر رہا ہوں۔ احقر ىہ فون سن کر مبہوت ہوگىا۔
ىہ سارى صورت حال 88-8-30 کو پىش آئى۔ احقر سبق پڑھا کر تھوڑى دىر سوچتا رہا پھر دوبارہ والد صاحب کو مىں نے فون کىا۔ انہوں نے فرماىا ہفتہ کا دن اس لئے رکھا ہے تاکہ آپ لوگوں کے جمعہ کا حرج نہ ہو۔ مىرے پوچھنے پر فرماىا ىہ آپرىشن ڈاکٹر بخارى صاحب کے کہنے اور ان کے مشورہ سے بلکہ ان کى مکمل نگرانى مىں ہوگا۔ مىں نے ملتان کى تىارى شروع کر دى۔ ساتھ کا ہنہ نو بھائى ہاشم اور آپا مہراً کو اطلاع کر دى۔ کسى کو اس کى کىا خبر تھى بقول