نجابت وعظمت مىں اىک سند کى حىثىت رکھتا ہے۔ سىد صاحبان کى بستى سرور والى ہر اعتبار سے مرکز مجىدى بن گئى، مہىنوں بھر ىہاں قىام رہتا اور زائرىن منتسبىن کا حلقۂ ارادت ہمہ وقت جمع رہتا۔ ىہ اىک بہت بڑى خانقاہ اشرفى بن گئى۔ حضرت شاہ صاحب باحىات ہىں ۔ اذکار و اشغال مىں استقامت رکھتے ہىں۔ اولاد احفاد بنون بنات بڑے چھوٹے تمام متشرع اصحاب علم وحلم ہىں (حفظہم اﷲ)
ان اصحاب ثلاثہ کے امکنہ سے پھر ىہ نور پھىلتا گىا۔ حتى کہ اىک کرن اس فقىر رشىد احمد کے مدرسہ عطاء العلوم کى طرف بھى پہنچى۔ اس مقام پر بھى کئى کئى دن آپ قىام فرماتے اور آپ ہى کى نسبت و تعلق سے مدرسہ ہٰذا مىں حضرت مفتى تقى عثمانى دامت برکاتہم، حضرت مولانا عبد الرحمن اشرفى ؒ، حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوىؒ، حضرت مفتى سىد عبد الشکور ترمذىؒ، حضرت مولانا محمد شرىف جالندھرىؒ (طاب اﷲثراہم) تشرىف لائے۔ اسى نسبت سے صاحبزادہ مفتى عبد القدوس زىد مجدہٗ اس فقىر پر توجہ فرماتے ہىں۔ حضرت مفتى صاحب اب والد کے جانشىن صورى ومعنوى کمالات کے حامل ہىں۔ مجىدى اشرفى فىض کو کوند جام پور اور کوٹ بودلہ کے علاقہ مىں پہنچى۔ ما شاءاﷲ بہت بڑا اصلاحى انقلاب آىا۔ حضرت مولانا سىد نذر محمد شاہ صاحبؒ اور سىد محمد اکبر شاہ صاحب زىدہ مجدہٗ نے خوب خوب جھولىاں بھرىں۔ آخر الذکر اس سلسلہ کى اىسى اىسى خدمت فرما رہے ہىں کہ اب وہ پاک و ہند مىں اکابرىن کے