بھى بتاىا تھا کہ پھر وہاں کسى کو نظر نہىں آئے) حضرت خواجہ مجذوب صاحبؒ ىہ دىکھ رہے تھے۔ حىرت ہوئى کہ کون تھے جو اس وقت اندر چلے گئے جب کہ ملاقات کا وقت بھى نہىں تھا اور باہر آکر کہاں غائب ہوگئے۔ حضرت مجذوبؒ صاحب سے رہا نہ گىا حضرت تھانوىؒ سے پوچھا کہ حضرت وہ کون صاحب تھے؟ حضرت ؒ نے پہلے تو ٹالا کہ آپ کو معلوم کرنے کى کىا ضرورت ؟ لىکن خواجہ صاحب نے لجاجت سے اصرار کىا کہ نہىں حضرت بتا ہى دىجئے۔ بالآخر حضرت تھانوىؒ نے فرماىا کہ ابدال تھے، انہىں کچھ پوچھنا تھا، وہ پوچھ کر چلے گئے۔ اب ىہ ىاد نہىں رہا کہ حضرت ڈاکٹر عبد المجىد صاحبؒ کا ىہ چشم دىد واقعہ تھا ىا حضرت خواجہ صاحبؒ سے سنا تھا۔ زىادہ تر ىہى خىال ہے کہ چشم دىد واقعہ ہے۔ حضرت خواجہ صاحبؒ کا درىافت فرمانا اور حضرت تھانوىؒ کا بتانا ىہ ہوسکتا ہے ان کے سامنے کا نہ ہو بلکہ بعد مىں خواجہ صاحب سے سنا ہو۔
(جىسا کہ عرض کىا گىا افادہ عام اس مىں ىہ ہے کہ حضرت حکىم الامتؒ مجدد تھانوى سے ابدال بھى پوچھتے ىا مشورہ لىتے تھے جس سے حضرتؒ کى مجددىت کى تائىد ہوتى ہے۔ خىر اىسے واقعات سے تو صرف تائىد ہى ہوتى ہے ، ورنہ اس سے بہت زىادہ قوى ظن غالب تو ان کے ہم عصر بزرگانِ دىن کے حضرت تھانوىؒ کے بارے مىں ان کے اقوال اور معاملات سے ہوتا ہے۔ جىسا کہ مثلاً مخدومنا حضرت شىخ الحدىث مولانا زکرىا صاحب کاندھلوىؒ کے والد ماجد حضرت مولانا ىحىىٰ صاحب جو امام ربانى حضرت گنگوہىؒ کے بڑے خلفاء مىں سے