بھائى صاحبان بھى پہنچ چکے تھے۔ نماز جنازہ جمعہ کے بعد ہونے کى وجہ ىہ تھى ، مىں نے کہا بھى تھا کہ جنازہ قبل از جمعہ ہوجائے ۔لىکن بہت سے علماء کرام کى خواہش تھى کہ ہم بھى اپنى اپنى مساجد مىں نماز پڑھ کر شرکت کر سکىں گے۔ مىں نے جب زىادہ مخالفت کى ہمارے سب سے بڑے بھائى نے کہا مولانا عبد المجىد صاحب کا جب انتقال ہوا تو جمعہ کا دن تھا۔ حضرت مولانا خىر محمد صاحب نے فرماىا کہ اگر جمعہ کے بعد جنازہ ہو تو ہم بھى شرىک ہوسکتے ہىں اس لئے جمعہ کے بعد کىا جائے۔ اس لئے جمعہ کے بعد نماز جنازہ مىں کوئى حرج نہىں۔ اىک خاص بات کا ذکر اس جگہ ضرورى ہے، وہ ىہ کہ والد صاحب نے اپنے کفن اور غسل کا سامان خود پہلے سے تىار کر کے بکس مىں رکھا ہوا تھا۔ کفن کے لئے پرانى چادرىں جو کئى دفعہ حج کے احرام مىں استعمال کىں وہ سنبھال کر رکھى ہوئى تھىں۔ انہى کا کفن دىا اور حضرت ابو بکر صدىق کى سنت کے مطابق گوىا آخرى وقت نسبت صدىقى نصىب ہوئى۔ حضرت تھانوىؒ سے تعلق اور نسبت آخرى وقت تک قائم رہى۔ حضرت تھانوىؒ کى ٹوپى کا ٹکڑا اپنى کفنى مىں سىنے کے جانب سىنے کا حکم اور وصىت کى تھى جو پورى کر دى گئى۔
اىک خواب
ڈىرہ غازىخان مىں حضرت کے اىک مرىد حاجى سکندر دىن صاحب تھے، انہوں نے بہت زىادہ عمر پاى۔ وہ فرماتے ہىں مىں نے اسى رات ىعنى جس رات حضرت کى وفات ہوئى خواب دىکھا ۔ رات کے دو بجے کے قرىب حضرت