جب زوال کا وقت ہوگىا تو احقر نے تىمم کراىا اور سہارا دے کر بٹھاىا اور کہا نماز پڑھ لىں۔ پوچھا قبلہ کا رُخ درست ہے۔ مىں نے عرض کىا جى ہاں۔ نماز پڑھى اور پھر سکون سے لىٹ گئے۔ ہوش و حواس قائم تھے۔ مختصر مختصر بات برادرم محمد ہاشم صاحب سے کى ۔ بڑے بھائى محمد قاسم صاحب جو مکہ مکرمہ مىں تھے ان کا پوچھا۔ احقر ظہر کى نماز کے بعد ڈاکٹر بخارى صاحب کى طرف گىا، وہ اسى وقت تشرىف لے آئے۔
جمعرات کے دن مورخہ 8 ستمبر تىن بجے سانس لىنے مىں دُشوارى ہوئى۔ ہسپتال کے عملہ نے پورى کوشش کى، لىکن ساتھ دل کا دورہ پڑا۔ ڈاکٹر بخارى صاحب نے مشورہ دىا کہ ان کو فوراً ہسپتال لے کر چلنا چاہئے۔ اور کہنے لگے مىں پہلے چل کر ضرورى انتظام کرتا ہوں۔ آپ ان کو لے کر جلدى آئىں۔
ڈاکٹروں نے پورى کوشش کى، لىکن موت کا وقت متعىن ہے۔ انتقال کے وقت کمرہ مىں اندر بھائى محمد ہاشم ،بھائى عباس، حافظ محمد ابراہىم صاحب اور احقر موجود تھے۔ جمعہ کى رات کو دو بجے ىہ شىخ طرىقت اپنے خالق حقىقى سے جا ملا، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ“ىہى وقت اور ىہى دن حضرت مولانا بچھراىونى کے انتقال کا تھا۔ جمعہ کى نماز کے بعد خىر المدارس مىں نماز جنازہ ادا کى گئى۔ حضرت مفتى عبد الستار صاحب نے امامت کے فرائض سر انجام دىئے۔ تدفىن حضرت حاجى محمد شرىف صاحب کے قرىب ہوئى۔ نماز جنازہ مىں لوگوں کى شرکت ہمارے اندازے سے کہىں زىادہ تھى۔ ہم سب بہن بھائى اور والد صاحب کے