گاڑى سے ہسپتال پہنچے، خون کى ضرورت پىش آئى، احقر کا گروپ مل گىا۔ احقر نے والد صاحب کو بتائے بغىر اپنا خون بلڈ بنک مىں جمع کرادىا۔ برادرِ عزىز حافظ عبد الخالق نے والد صاحب کو بتا دىا۔ والد صاحب پر اس کا بہت اثر ہوا ، فرماىا چلو پھر مت، آرام کرو۔
احقر کو آپرىشن سے پہلے فرماىا کہ آپرىشن کے بعد ہسپتال کى چارپائى پر نماز پڑھنى پڑے گى، مجھے ان کے بستروں کے پاک ہونے مىں شبہ ہے۔ اگر مىرا انتقال ہوگىا تو ان نمازوں کا فدىہ دے دىنا۔ اگر مىں ٹھىک ہوگىا تو پھر اِن شاء اﷲ العزىز ان نمازوں کو لوٹا لوں گا۔ احقر نے ىہ وصىت الحمد ﷲ پورى کر دى، آپرىشن الحمد ﷲ کامىاب ہوا۔
چوتھے دن اچانک طبىعت خراب ہوگئى۔ دل کا دورہ پڑا، لىکن اس حالت مىں بھى نماز کا خىال رہا۔ چارپائى سے اٹھنے کى کوشش کرتے، مىں پوچھتا، ابا جى کىا بات ہے؟ فرمانے لگے نماز کے لئے جا رہا ہوں۔ مىں نے کہا ابھى وقت نہىں ہوا ۔ پھر خواجہ صاحب کا شعر ؏
مىرا نقشِ ہستى نہىں مٹنے والا
پڑھنے لگے۔مىں نے کہا خواجہ صاحب کا شعر پڑھ رہے ہو۔ فرماىا تم کىا جانو خواجہ صاحب کو، تم کىا جانو۔ اور پھر چارپائى سے اترنے لگے۔ احقر نے بڑى مشکل سے روکا۔ فرماىا اگر مىرى نماز قضا ہوگئى تو ىہ پہلى نماز قضا ہوگى اور تم ذمہ دار ہوگے۔