تھى۔ لىکن والد صاحب نے منع کر دىا۔ والد صاحب کے چلے جانے کے بعد احقر شىطانى وسوسے اور چکر مىں آکر مدرسے سے بغىر اجازت لئے چلا گىا۔ والد صاحب بہت ناراض ہوئے اور حضرت تھانوىؒ کى تعلىم کے مطابق احقر سے حضرت مہتمم صاحب کى خدمت مىں معافى کا خط لکھواىا اور دوبارہ داخلہ کى اجازت کى درخواست جوابى خط تھا۔ حضرت نے فوراً جواب دىا اور اس جواب مىں بھى والد صاحب کا تعلق اور عزت جو حضرت مولانا کے دل مىں تھى، ظاہر ہورہى تھى۔ حضرت مولانا کے الفاظ جو ابھى تک لفظ بلفظ ىاد ہىں، حسبِ ذىل ہىں۔
حضرت مولانا خىر محمد صاحب نور اﷲمرقدہٗ کاجواب
”جن کا تم لحاظ نہىں کرتے مَىں ان کا لحاظ کر کے تم کو دوبارہ داخلہ کى اجازت دىتا ہوں“۔
حضرت مولانا نور اﷲمرقدہٗ نے والد صاحبؒ کو خىر المدارس کى شورىٰ اور منتظمہ کا رکن منتخب فرماىا اور والد صاحب کے ساتھ مولانا کو اتنا تعلق تھا کہ رمضان المبارک مىں تراوىح کے بعد والد صاحب کو حکم تھا کہ کچھ نہ کچھ بىان کر دىا کرىں جو والد صاحب اخىر عمر تک کرتے رہے۔
جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد چائے پر خصوصى طور سے والد صاحب کو مدعو فرماتے اور اکثر خواجہ صاحب کے اشعار سنتے، جو والد صاحب کو اکثر ىاد تھے۔ اگر کسى جمعہ کو حاضرى نہ ہوسکتى تو پوچھتے تھے ڈاکٹر صاحب کہاں ہىں۔