والے پر ہوتا ہے“ (ابن ماجہ)
اىک دوسرى حدىث مىں ہے کہ:۔
”جس شخص سے اس کا بھائى معذرت کرے اور وہ اس کو قبول نہ کرے وہ مىرے پاس حوضِ کوثر پر نہ آنے پائے گا“۔ (ترغىب و ترہىب، منقل از ”العذر والنذر“)
لہٰذا اُمىد ہے کہ جن حضرات کے اس قسم کے (مالى ىا غىر مالى) حقوق مجھ پر واجب ہىں وہ اِن حدىثوں کے پىشِ نظر انشاء اﷲتعالىٰ مجھے ضرور معاف فرما دىں گے۔ اور اگر معاف کرنے کى ہمت نہ ہو تو فتوىٔ شرعى کے مطابق مجھ سے مىرى زندگى مىں ىا مىرے وفات کے بعد مىرے ترکہ مىں سے عوض لے لىں۔ خدا کے لئے قىامت پر مؤاخذہ نہ رکھىں کہ اس کا کسى طرح تحمل نہىں۔
عبد المجىد
واضح رہے کہ کسى شخص کى غلطى معاف کرنے ىا معذرت قبول کرنے سے ىہ لازم نہىں آتا کہ اس سے دوستانہ اور خصوصى تعلقات بھى ضرور رکھے جائىں، کىونکہ اىسا کرنا بعض اوقات مشکل اور بعض اوقات خلافِ مصلحت ہوتا ہے۔ لہٰذا معافى کى اس درخواست کا مطلب دوستى، بے تکلفى اور خصوصى مراسم کى درخواست نہىں ، صرف حقوق شرعىہ سے سُبکدوش کرنے کى درخواست ہے۔عبد المجىد
اس قسم کى جو کوتاہىاں دوسروں سے مىرے حق مىں ہو گئى ہىں وہ سب