کىا۔ ىہ بھى مىرے والد صاحب کے لئے بڑے اعزاز کى بات ہے۔
والد صاحب نے اپنى تىنوں بىوىوں کو سب سے پہلے حج کرائے۔ ہمارے دادا جان پر حج فرض تھا لىکن وہ ہر سال آئندہ سال کر تے رہتے، والد صاحب اپنا حج دادا جى سے پہلے کر آئے تھے۔ والد صاحب کے اصرار پر فرماىا مىرے دو کام چل رہے ہىں اىک دہلى مىں کسى کى کوٹھى تھى اور اىک کوئى اور تھى۔ کىونکہ مىں نے حکمت کے ساتھ ٹھىکىدارى کا کام بھى شروع کردىا۔ پھر ىہ کام اتنا بڑھا کہ حکمت چھوڑدى اور ٹھىکىدار ہى نام کا جز بن گىا۔ والد صاحب نے کہا مىں چھٹى لے کر آپ کے کام کى نگرانى کروں گا۔ ىہ ابا جى کى کرامت تھى۔ حج کى چھٹى مىں انہىں کبھى نہ تو دقت کا سامنا کرنا پڑا اور ہى اپنى درخواست کى دوبارہ ىاد دہانى کرائى۔ دادا جى کے ساتھ ہمارے بڑے برادر محمد ہاشم جو غالباً اس وقت شاىد ہى اىک سال کے ہوں اور حضرت مولانا عبد المجىد صاحب بھى تھے۔ اور ىہى وجہ تھى والد صاحب دادا جى سے اصرار کرتے رہے کہ حج اىک عارف باﷲکے ساتھ ہو جائے گا۔ والد صاحب نے چھٹى لے کر دادا جان کے کام کى نگرانى کى۔ احقر نے وہ کوٹھى دىکھى ہےلىکن باہر سے۔ والد صاحب نے اس کوٹھى کا نام ، سڑک کا نام بتاىا تھا ۔ اندر اس لئے نہىں گىا وہ اہم مقام پر تھى، وزىر اعظم ہاؤس اور دىگر بڑے لوگوں کى کوٹھى قرب و جوار مىں تھى اس لئے باہر سے دىکھ کر آگىا۔ والد صاحب کو جب بتاىا چہرے پر مسکراہٹ اور خوشى کا اظہار کىا، دہلى کا ذکر کرتے رہے۔