حضرت بچھراىونى نے لکھواىا پىش ِ خدمت ہے، اس خط مىں مولانا عبد البارى کى اہلىہ کے بھى کچھ حالات ہىں جو انہوں نے اپنے شوہر سے تحرىر کروائے:
بخدمت محضرت و مکرم جناب مولانا عبد البارى صاحب
السلام علىکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
آپ کا خط حرفاً حرفاً پڑھوا کر بغور سنا عجىب لطف حاصل ہوا جس پر اىک شعر ىاد آگىا جس کو ىوں کہہ سکتا ہوں آپ کا چہرہ سراپا سامنے آگىا ، شعر
باتىں وہ پىارى پىارى کہ بس کچھ نہ پوچھئے
صورت وہ بھولى بھالى مىں تم سے کىا کہوں
اب رہا حضرت محترمہ کا حال اس پر بعض اصطلاحات کى باتىں ىاد آگئىں۔ اىک بزرگ جب بىمار ہوتے تو علاج مطلق نہىں کىا کرتے تھے۔ جب خدام اور ہمعصر احباب اصرار کرتے کہ علاج ضرور ہونا چاہئے تو کہتے کہ اچھا جاؤ کسى طبىب سے مىرا حال کہہ کر نسخہ لکھوا لاؤ اور ىہ بھى کہہ دىنا کہ مىں معمولى دوائىں استعمال نہىں کروں گا ۔ جب نسخہ آتا تو اسے اٹھا کر بکس مىں رکھ دىتے اور اس سے دو چند قىمت اىک ہفتہ کى خىرات کىا کرتے اور اگر زىادہ ضرورت ہوتى تو اىک ہفتہ اور بڑھا دىتے۔
اس واقعہ کے لکھنے کى غرض ىہ ہے کہ حضرت محترمہ کا مزاج بزرگانِ سلف جىسا ہےما شاء اﷲ محترمہ صاحبہ نے عقىدہ کو عملى جامہ پہنا دىا لہٰذا ان کے لئے بھى ہزار مبارکبادى ہىں اور آپ کے لئے بھى آپ کے سر پر اىسا عجىب و غرىب ساىہ ہے کہ اس کے منقطع ہونے کو اىک منٹ کے لئے بھى کوئى شخص گوارہ نہىں کر سکتا۔ اﷲ تعالىٰ بعافىت ان