پچھلے ماہ مىں اىک سو روپىہ کا نوٹ تھا اس کا بىمہ والد صاحب کے نام کر دىا تھا اور عرض کىا تھا کہ آپ کو عباس کے خرچہ والے پىسے بھىج دىں لىکن معلوم ہوا انہوں نے گھر مىں دے دىئے تھے گھر مىں چونکہ عباس وہاں تھا ىہ خىال کىا کہ اس کو دے دىں گے جاتے وقت اس کے بعد کوئى خط نہىں آىا کہ دىئے ىا نہىں اور آپ تک پہنچے ىا نہىں پہنچے۔ حقىقت مىں تو مىرى غلطى کہ سىدھا کىوں نہىں بھىجے لىکن سو روپىہ کا نوٹ اس دن ٹوٹ نہ سکا اور مجھے ہىلتھ آفىسر کے ساتھ دورہ پر جانا تھا ہمراہ رکھنے مىں ڈر تھا اس لئے جلدى دفتر ہى سے بىمہ کر ادىا۔ بلکہ اىک کلرک صاحب سے بىمہ کراىا تھا اس لئے معافى چاہتا ہوں۔
جواب:۔سبحان اﷲ! اىسى فضول باتوں کى فکر مىں آپ پڑے، مجھے کىوں ڈالتے ہو؟ ىہ فضول داستان مجھے سنانے کى کىا غاىت ہے؟
عرض:۔ہم نے جو آپ کى دعا سے مدرسہ کا انتظام کىا ہے اس مىں کچھ لڑکے قرآن شرىف ، کچھ صرف نحو اور کچھ ترجمہ قرآن شرىف اور چند حىات المسلمىن اور تعلىم الدىن پڑھتے ہىں۔ مولوى عبد الرحىم عربى مدرس ہائى سکول بعد نماز عصر ترجمہ قرآن شرىف پڑھاتے ہىں۔ اس مىں تىن چار ماسٹر اور چھ سات دفتر کے بابو صاحبان نے وعدہ کىا ہے ، کبھى کبھى کچھ کم آدمى آتے ہىں ،سرکارى مدرسہ کے لڑکے سرکارى ٹائم کے بعد پڑھتے ہىں۔
جواب:۔بہتر ہے اﷲ برکت کرے۔
عرض:۔اب اىک تو چندہ کے متعلق درىافت ہے۔ نائب تحصىلدار صاحب کے