حضرت خواجہ صاحبؒ کا اىک قطعہ مىں اس کے ”شانِ ورود“ کے سناىا جو اس احقر نے اُ سے پہلى بار سنا۔ فرماىا کہ جناب وصل بلگرامى مرحوم ( جو اپنى آخرى عمر مىں حضرت تھانوى قدس سرہ العزىز کے متوسلىن مىں اىسے شامل ہوئے کہ بس خانقاہ ہى کے ہو رہے اور تھانہ بھون ہى مىں وفت پائى اور خانقاہ کے قبرستان مىں مدفون ہىں۔ تھے تو لکھنؤ کے مگر بس حضرت قدس سرہ کے گروىدہ ہو کر سب کچھ تج دىا) جو بولا بہت کرتے تھے اور حضرت قدس سرہٗ نے از راہِ تربىت ان کو ہداىت فرمائى کہ بولنے مىں کمى کرو۔ مگر وہ غالباً اس پر قادر نہ ہوسکے اور باوجود ہداىتِ شىخ کے ان کے بولنے مىں کوئى کمى نہ آئى۔ اىک روز خواجہ صاحب ہم لوگوں کے ساتھ بىٹھے ہوئے تھے اور حسب معمول اپنے اشعار وغىرہ سنا رہے تھے کہ وصل صاحب بھى آئے اور خواجہ صاحب کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ معاً خواجہ صاحبؒ نے سر اُٹھا کر ان کى طرف دىکھا اور ان کو مخاطب کر کے فرماىا کہ ؎
تعلّى سے علو حاصل نہ ہو گا
بڑے دعووں سے تو کامل نہ ہو گا
زباں کو روک ! حسبِ حکم ِ مرشد
کہ ىوں اے وصل! تو واصل نہ ہوگا
حضرت ڈاکٹر صاحبؒ کى ان مجلسوں اور صحبتوں کے دس سال کا عرصہ اس طرح گزر گىا کہ آج ىہ طوىل عرصہ اىک خواب وخىال معلوم ہوتا ہے۔