”حضرت ڈاکٹر صاحب کا مجلس کے ساتھ جو تعلق تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگائىے کہ نہ صرف وہ سالانہ اجتماع مىں بڑى پابندى ، اہتمام و لگن کے ساتھ تشرىف لاتے بلکہ ضعف و علالت کے باوجود نہاىت بشاشت اور خندہ پىشانى سے تبلىغى اسفار مىں ہمراہ تشرىف لے جاتے۔ اىک بار تو مجھے ىاد ہے کہ اىک اىسا ہى سفر سخت گرمى اور لو کے زمانے مىں ہوا اور سفر بھى بارہ تىرہ روز کا تھا۔ سفر بھى رىل اور بسوں کا تھا۔ جگہ جگہ قىام کرنا، سفر لاہور سے شروع ہوا اور کراچى پر ختم ہوا۔ مگر اس جھلسا دىنے والى گرمى اور لو کے تھپىڑوں مىں وہ تکالىف کى پرواہ کئے بغىر خانىوال سے غالباً سکھر تک ہمراہ رہے اور ہر ہر قدم پر رہنمائى اور شفقت ومحبت سے نوازا۔ اس سفر مىں ان کے قلبى تعلق کے بے مثال مناظر سامنے آئے۔ اﷲاﷲ آج ہمارے قلوب مىں جو ان کى بے پناہ محبت وعظمت اور تعلق ہے وہ اىسا لگتا ہے کہ ہمارا کمال نہىں ، بلکہ انہى جىسے مخلص بزرگوں کے تعلق اور محبت کا پر تو ہے“۔
آپ کو حضرت مجذوب کے اشعار بڑى کثرت سے ىاد تھے اور آپ بڑے ذوق و شوق اور ترنم سے خواجہ صاحب کے انداز ہى مىں اشعار سناتے تھے۔ آپ کى مجالس روحانىہ اکابر و مشائخ کے تذکرہ سے پُر ہوتى تھىں اور آپ کى مجلسوں اور صحبتوں سے سىنکڑوں افراد نے استفادہ کىا۔ آپ نے 9ستمبر 1988ء کو رحلت فرمائى اور ملتان مىں تدفىن ہوئى۔ (ماخوذ از کاروان تھانوى: مؤلفہ محمد اکبر شاہ بخارى)