تھے ان کے نام ىاد نہىں ۔ لحد مىں اترا اور سنت کے موافق غروب آفتاب سے چند منٹ ہم لوگ تدفىن سے فارغ ہوگئے۔
واپسى پر مولانا عاشق الٰہى مىرٹھى کا شعر جو انہوں نے تذکرۃ الرشىد مىں لکھا بندہ اس پر غور کرتا رہا اور اس کو پڑھتا رہا ؎
فدا ہوں آپ کى کس کس ادا پر
ادائىں لاکھوں اور بے تاب دل اىک
مولانا محمد حنىف صاحب نے مدرسہ کے مہمان خانہ کى چابى احقر کے حوالہ کى کىونکہ ىہ مہمان خانہ خصوصى تھا۔ اس لئے تقرىباً آٹھ دس آدمى اس مىں ٹھہرے ۔ کچھ لوگ واپس چلے گئے۔ چچا محمد حىات صاحب بذرىعہ جہاز پنڈى سے ملتان پہنچے۔
ہم سب بہن بھائى اور ان کى سارى اولاد، بہنوئى ، والدہ صاحبہ تمام بھائى صرف بھائى محمد قاسم اور چچا عبد القىوم کے علاوہ سب موجود تھے۔
دوسرے دن شام کو رىل کار سے احقر اور اہلىہ بھائى ہاشم کى بچىاں ماسٹر عبد الرحىم صاحب واپس ہوئے۔ احقر اىک دن کے بعد دوبارہ ملتان آگىا۔ والد صاحب کا ترکہ شرعى حىثىت سے تقسىم کىاگىا۔ نقد رقم اىک روپىہ بھى نہ تھا۔ جو سامان تھا اس کو تقسىم کىا۔ مکانات وغىرہ بھى عرصہ چار سے چھ ماہ کے عرصہ مىں مکمل ہوگئے اور اتنى دىر کى وجہ بھى بھائى قاسم کى سعودىہ موجودگى تھى۔ عزىزم عبد الخالق نے اىک اہم بات کى اگر وراثت مىں جھگڑا ہوتا تو ہم تىن ماؤں