احقر کا اىک تہبند جو ہسپتال مىں والد صاحب کے زىر استعمال رہا وہ اىک دن دھلنے کىلئے گھر آىا تھا۔ وہ چونکہ سلا ہوا تھا اس لئے اس کو کاٹ کر ڈالا گىا۔ بعد مىں احقر نے اس کو ....لىا۔
والد صاحب نے اپنے کفن مىں صابن ، خوشبو وغىرہ ىہاں تک کہ نواں شہر لے جانے کا کراىہ بھى الگ سے رکھا ہوا تھا اور ىہ وصىت تھى کہ اگر اس مىں کمى رہ جائے تو مىرى وارثت سے لىا جائے کسى دوسرے سے لىنے کى اجازت نہىں۔ والد صاحب کى وفات تقرىباً اسى وقت ہوئى جس وقت حضرت بچھراىونىؒ کى وفات کا ہوئى تھى۔ اور حدىث مىں ہے جو شخص جمعہ کى شب مىں انتقال کرے اس سے قبر کا سوال و جواب معاف ہے۔ اسى طرح پىر کا بھى ذکر ملتا ہے۔
ىہاں پر اپنے استاد حضرت مولانا محمد ادرىس صاحبؒ کا اىک واقعہ لکھ دوں جو مىرے لئے بہت تسلى کا ہے۔ فرماىا کہ دىوبند مىں اىک مدرس کى اہلىہ سخت بىمار تھى۔ حضرت مولانا نے اىک دن اپنى اہلىہ سے پوچھا ان کا کىا حال ہے تو جواب دىا اچھا ہے۔ اور آج تو وہ اىک شعر پڑھے جار ہى ہىں ، اور وہ شعر ىہ ہے ؎
مىں بىچارى ہاتھ خالى چلى سرکار مىں
کون پوچھے گا مجھے سرکار کے دربار مىں
مولانا فرماتے ہىں مىں نے کہا جمعہ کى شب کا انتظار کر رہى ہىں۔