تھے ، ان کا قول جىسا کہ اشرف السوانح مىں ہے کہ ہم حضرت گنگوہىؒ کو مجدد سمجھتے تھے لىکن حضرتؒ کا فىض تو زىادہ تر علماء کو ہوا اور عوام و خواص سب کو فىض حضرت تھانوىؒ سے بہت ہوا۔ اس لئے وہ مجدد معلوم ہوتے ہىں۔ احقر مؤلف عرض کرتا ہے کہ تاہم کسى کے لئے مجددىت کا منصب ىقىنى نہىں بلکہ ظنى ہوتا ہے۔ اور نہ مجدد کو ماننا عقائد مىں داخل ہے۔ اس لئے اس پر اصرار نہ کرنا چاہئے۔ البتہ ىہ ضرور ہے کہ مجدد کو پہچاننے سے اس سے دىنى استفادہ واستفاضہ زىادہ ہونا ضرور متوقع اور مظنون ہے۔(ىہ مضمون مولانا آفتاب احمد
صاحب کا ہے)