وصىت نامہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ کَفٰى وَ سَلَامٌ عَلٰي عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰي، اَمَّا بَعْد!
احقر محمد عبد المجىد خاں بن حاجى عبد الصمد خاں عفا اﷲ عنہما مظہر مدعا ہے کہ حدىث مىں نبىٔ کرىم علىہ الصلوٰۃ والتسلىم کا ارشاد ہے:۔
مَنْ مَّاتَ عَلٰي وَصِيَّۃٍ مَاتَ عَلٰي تُقًي وَّ شَھَادَۃٍ وَّ مَاتَ مَغْفُوْرًا لَّهٗ (مشكوٰۃ بحواله سنن ابن ماجه)
جو شخص وصىت کر کے مرا وہ صراطِ مستقىم اور طرىقِ سنت پر مرا، اور تقوى اور شہادت پر اس کى موت ہوئى اور گناہوں کى مغفرت کى حالت مىں مرا۔
مَا حَقُّ امْرِءٍ مُسْلِمٍ لَهٗ شَيْءٌ يُّوْصِي فِيْهِ يَبِيْتُ لَيْلَتَيْنِ اِلَّا وَ وَصِيَّتُهٗ مَكْتُوْبَۃٌ عِنْدَهٗ (رواه البخاري ومسلم)
جس شخص كے ذمہ کوئى واجب ادا کرنا ہو جس کى وصىّت اس کے لئے ضرورى ہے اس کو حق نہىں کہ دو راتىں بھى اس طرح گزارے کہ اس کى وصىّت لکھى ہوئى اس کے پاس موجود نہ ہو۔
ان رواىتوں سے واجب حقوق کى وصىّت کاواجب ہونا، اور غىر واجب حقوق کى وصىّت کا مُستحب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا