تک رہے گى۔ اگر سارى دنىا بدل جائے تو بدل جائے لىکن شرىعت نہىں بدل سکتى۔
پہلے مىں نے شادى اور بىاہ کے متعلق کچھ باتىں ذکر کى ہىں ىہ بات اس مىں ضرورى ہے۔ شادى جب کرنى ہو تو لڑکے اور لڑکى کا دىن دىکھو اور گھر دىکھا جائے کہ اس مىں دىن کى تعلىم اور پابندى ہے ىا نہىں۔ پىسہ نہ دىکھا جائے پىسے والے تو بہت مل جائىں گے لىکن ان کے اندر دىن نہىں ہوگا ، ہاشم صاحب اىک دفعہ بھگت چکے ہىں کہ نہ باپ کے ڈاڑھى تھى نہ بىٹے کى ڈاڑھى تھى نہ ان کى ، تحقىقات کى ، مسلک دىکھا تو برىلوى بڑے کٹر۔ اس کے کسى رشتہ دار ماسٹر کو دىکھ کر اس کے ڈاڑھى ہے اس کے بات سمجھ مىں آگئى۔ اپنا خود خىال کرىں ، دىوبندى مسلک ہو، اہلسنت والجماعت مسلک ہو، اور پىسے کى طرف خىال نہ کرىں بلکہ شرىف خاندان ہو، نماز روزے کى پابندى والا گھر ہو، پردے کا بھى خىال ہو، مىوات مىں پردہ کا ملنا مشکل ہے لىکن پھر بھى ہىں کچھ لوگ اىسے ىہ خىال کرنا چاہے کہ پىسہ دىکھنے کى بجائے دىن دىکھىں، حدىث مىں بھى ىہ آىا ہے کہ جب کسى عورت سے شادى کرو حسن و جمال اور پىسہ نہ دىکھو بلکہ دىن دىکھو۔ اگر دىندار گھر مل جائے تو اس مىں شادى کرو، نہ ىہ توقع کہ ہم اتنا دىں گے۔ صاف بات ہے کہ ىہ رواج بہت پڑ گىا ہے کہ کہتے ہىں ہم کچھ نہىں دىں گے لىکن ىہ وقت آتا ہے تو کہتے ہىں لاؤ جى اپنى گاڑى۔ صاف کہہ دے ہمارے پاس دىنے کو ہے دو تىن جوڑے ، صندوق ہے، ىہ کپڑے ہىں ىہ ہم دے سکتے ہىں۔