آئے توانہوں نے کہا مىں ىہ دعوت قبول نہىں کرتا۔ تو نواب صاحب چلے گئےاور حضرت شاہ صاحب کے سامنے مفتى صاحب کى معذرت بىان کر دى۔ تو شاہ اسحاق صاحب نے مفتى مظفر حسىن سے فرماىا مظفر حسىن کىا تجھے تقوىٰ کا ہىضہ ہوگىا ہے کىا نواب صاحب کے خلوص مىں تجھے شک ہے؟
انہوں نے عرض کى حضور! مجھےتقوىٰ کا ہىضہ وغىرہ کچھ نہىں ہوا اور نہ تقوىٰ ہے مىں نے تو اىک مسئلہ بتاىا مىں نے سنا ہے نواب صاحب قرضدار ہىں ، اور ىہ جو دعوت کر رہے ہىں دلى کے نواب ہىں نوابوں والى دعوت کرىں گے۔ اور آپ کو پالکى مىں بلاىا جائے گا چار کہار پالکى کو اٹھائىں گے، سارے شاگرد جائىں گے، شہر کے اور آدمى بھى جائىں گے، ہمارى جىسى دعوت کرىں گے نہىں، بہت بڑھىا دعوت ہوگى تو جتنا پىسہ ىہ دعوت مىں خرچ کرىں گے کىوں نا وہ پىسہ قرض مىں لگائىں۔ دىکھئے شاہ اسحاق استاد، استاد کو شاگرد کى بات پسند آئى انہوں نے کہہ دىا بھائى جا کر اطلاع کر دو، دعوت ہمارى بھى نامنظور ہے۔ اس لئے کہ جب نواب صاحب پر قرض ہے تو وہ قرض مىں وہ رقم ادا کرىں۔
اب جو ىہ کہتے ہىں قرض ادائىگى کى فکر ہے قرض ادائىگى کى فکر تو ہوتى نہىں قرض تو اسى طرح رہتا ہے اور فضولىات مىں خرچ کىا جاتا ہے۔ ناک اور نمود اور دکھاوے کے لئے خرچ کىا جاتا ہے۔ خرچ مىں کمى نہىں کرتے اور کہتے ہىں قرض کى فکر ہے۔ دىکھئے ىہ ہے قرض اتارنا، شاہ اسحاق صاحب نے نواب صاحب کو فرماىا آپ دعوت کى رقم اپنے قرض مىں دىں ۔ قرض کى ادائىگى بہت