نے طفىل صاحب سے پوچھا ان کو جانتے ہو؟ اس نے کہا ىہ مىرے پىرو مرشد ہىں۔انہوں نے کہا تمہىں شرم نہىں آتى ہم آج تک ىہ سنتے رہے ہىں کہ پىر نے اپنے مُرىد کو ٹھگ لىا، آج ىہ پہلا واقعہ مَىں دىکھ رہا ہوں کہ مرىد نے پىر کو ٹھگ لىا۔ ان کى رقم فوراً واپس کر دو ورنہ مارشل لا آپ کے سامنے ہے۔ اس نے رو کر جنرل صاحب کے سامنے والد صاحب کے پىر پکڑ لئے مجھے تھوڑى سى مہلت دے دو۔ والد صاحب نے پھر رحم کرتے ہوئے اس کو مہلت دے دى۔ جنرل صاحب نے والد صاحب کو روکابھى لىکن والد صاحب نے قرضدار کو مہلت دىنى والى حدىث پر عمل کىا۔
ىہاں مىں ىہ بات ذکر کردوں ىہ رقم مضاربت پر دى تھى لىکن بعد مىں اس نے والد صاحب کا حصہ ختم کر دىا اور کہا ىہ رقم آپ کى مىرے ذمہ ہے کىونکہ ٹىکس والے آپ کو ہر روز آکر تنگ کرىں گے۔ والد صاحب نے اس کى ىہ بات تسلىم کر لى ۔ والد صاحب کى وجہ سے انجىنئر اخوند مظفر قىوم نے بھى کچھ رقم تقرىباً پندرہ ہزار روپىہ لگائے، دو ہزار آپا سمىعاً کے تھے جو انہوں نے معاف کر دىئے۔ اخوند صاحب والد صاحب کے خلىفہ بھى تھے ۔ وہ 1970ء کى جنگ مىں ڈھاکہ مىں تھے سقوط ڈھاکہ کے وقت پى آئى اے کے اىک فوکر جہاز کو خود اُڑا کر نىپال رات کے وقت چلے گئے ۔لىکن بقول عارف رومى ؎
چوں قضا آىد طبىب ابلہ شود
”جب موت آتى ہے تو طبىب بے وقوف ہوجاتا ہے“