مولانا کے پاس آتے تھے لىکن مولانا کبھى ان کے پاس نہىں گئے۔ کئى بار اىسا ہوا کہ ان کى طرف سے مولانا کى خدمت مىں رقم پىش کى گئى مولانا وہ رقم طلباء پر برابر تقسىم کر دىتے تھے۔ حضرت مولانا کے والد ماجد علامہ انور شاہ کشمىرىؒ کے شاگرد تھے۔ لغارى حضرت انکو چوٹى لے گئے اىک دىنى ادارہ قائم کىا۔ مولانا محمد قاسم صاحب ان کے ساتھ تھے وہىں مولانا کے والد کا انتقال ہوا۔ مولانا نے اکثر کتب اپنے والد صاحب سے ہى پڑھىں۔ فاروق لغارى جس وقت صدر بنے مولانا نے ان کى طرف کوئى توجہ نہىں کى ورنہ وہ مولانا کے اىک اشارہ پر حاضر خدمت ہوتا۔ مولانا کے انتقال کے بعد وہ تعزىت کىلئے آئے۔
مولانا نے دورہ پہلے قاسم العلوم مىں کىا، دوبارہ دورہ حدىث خىر المدارس مىں کىا۔ مولانا کے شاگرد اس وقت ہزاروں کى تعداد مىں ہىں۔ اﷲتعالىٰ مولانا کى قبر کو نور سے بھر دے اور مولانا کىلئے ان کا مدرسہ اور ان کى اولاد صدقہ جارىہ رہىں گے۔ آمىن ثم آمىن
مولانا فتح محمد صاحب مستوئى مکى
ىہ بھى ڈىرہ غازىخان کے مضافات کے رہنے والے تھے۔ والد صاحب کے بہت پکے مُرىد تھے۔ چاہے ان کو کتنى ہى ڈانٹ اور ڈپٹ پڑى لىکن انہوں نے ابا جى کا دامن ہاتھ سے نہىں چھوڑا۔ نہاىت اىمان دار متقى انسان تھے۔ والد صاحب کے سارى اولاد سے بہت محبت کرتے تھے۔ پہلے تقرىباً دس پندرہ سال مکہ مکرمہ مىں رہے پھر واپس آگئے۔ پھر مولانا قادر بخش کے مکتبہ مىں ملازمت