عبد الرحىم صاحب کى نسبت کو ختم نہىں کىا بلکہ مدرسہ کا نام رحمىہ عابدىہ رکھا۔ اب وہ مدرسہ اىک تن آور درخت کى مانند ڈىرہ کے بڑے مدرسوں مىں شمار ہوتا ہے۔ بلکہ اگر ىہ کہا جائے کہ اىسا مدرسہ پورے ضلع ڈىرہ مىں نہىں ہے تو مبالغہ نہىں ہوگا۔ حضرت مولانا نہ صرف والد صاحب کى زندگى مىں بلکہ والد صاحب کے انتقال کے بعد بھى مجلس کے سالانہ اجتماع مىں شرکت کرتے رہے۔ تھانوى اور مدنى بحث سے علىحدہ رہتے ہوئے ۔ وہ ذہناً ،طبعاً، ذوقاً صوفى منش تھے اور حضرت تھانوىؒ کے سلسلہ کے ساتھ منسلک تھے۔ والد صاحب کے ممتاز خلفاء مىں سے تھے۔ والد صاحب بھى ان کا بہت خىال رکھتے تھے۔ مولانا کے صاحبزادے سوائے اىک کے سب ماشاء اﷲحافظ قرآن ہىں۔
حضرت مولانا پر اخىر عمر مىں فالج کا حملہ ہوا، لىکن اس حالت مىں بھى مدرسہ کى خدمت سرانجام دىتے رہے۔ مولانا کى وفات رمضان المبارک ، جمعرت کى شام ملتان ملٹرى ہسپتال مىں ہوئى۔ صبح ڈىرہ غازىخان مىں جنازہ ہوا، ڈىرہ کى تارىخ مىں اتنا بڑا جنازہ نہىں دىکھا گىا۔حافظ عبد الرحىم صاحب نے نماز جنازہ پڑھائى۔ مىں نے ىہ تمام باتىں اپنى ىاد داشت سے لکھى ہىں ىہ امىد کرتے ہوئے کہ اﷲتعالىٰ کسى ان کے صاحبزادہ ىا شاگرد کو توفىق دے کہ وہ مولانا کى سوانح مرتب کرے۔
اىک بات اور ىاد آگئى اور اس کا لکھنا ضرورى ہے، مولانا مىں استغناء بہت تھا۔ لغارى خاندان سے مولانا کے تعلقات تھے بلکہ خود اس خاندان کے افراد