تشرىف لے جاتے۔ حضرت مولانا خىر محمد صاحب کے بعد تو ىہ بس ابا جى کے ہو کر ہى رہ گئے ۔ والد صاحب کو سروروالى لے جاتے، فورٹ منرو کا انتظام کرتے جب ملتان آتے ابا جى کو ضرور ڈىرہ ساتھ لے جاتے۔ سرور والى مىں والد صاحب کو طوىل طوىل عرصہ ٹھہراتے ۔ اپنے گھر مىں والد صاحب کے لئے مرغوب چىزوں کا اہتمام کرتے۔ جب انہوں نے سرور والى مىں نىا مہمان خانہ بناىا کىونکہ شاہ صاحب کے لڑکے اس علاقہ کے چىئر مىن تھے اس لئے بڑى حوىلى بنوالى گئى۔ اس مىں اىک کمرہ والد صاحب کے لئے مخصوص تھا۔ ابا جى کے انتقال کے بعد احقر کا قىام اسى کمرے مىں کراىا کرتے تھے۔ اور مىرے سے ىہ کہا کہ مىں حضرت کے کمرے مىں کسى دوسرے آدمى کو ٹھہرنے نہىں دىتا۔
اىک دفعہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق شاہ صاحب کى دعوت پر ڈىرہ تشرىف لائے، احقر بھى ساتھ تھا۔ ابا جى والے کمرہ مىں والد صاحب اور ان کے برابر کے کمرہ مىں مَىں اور مولاا ابرار الحق صاحب کا قىام تھا۔ حکىم صاحب اور ان کے دوسرے ساتھىوں کے لئے دوسرى جانب انتظام تھا۔ والد صاحب کے حکم پر مىں حضرت ہردوئى کے کمرہ مىں سوىا۔ فرماىا رات کو کسى وقت کوئى ضرورت آسکتى ہے۔ مىں اس رات کو سوىا نہىں لىٹا رہا، ہلکى نىند آئى لىکن مولانا کى عظمت کا رعب بىدار کرتا رہا۔ حضرت مولانا نے مجلس کے بارے مىں کچھ سوالات کئے اور حقىقى طور پر مولانا نے ہى مجھے ڈىرہ کے سفر کى دعوت دى تھى۔