سلام اور آنے کا ذکر کىا۔ حضرت نے فرماىا مىں خود حاضر ہوں گا۔ مىں نے عرض کىا حضرت کو تىسرى منزل پر جانے کى مشقت ہوگى۔ فرماىا کوئى بات نہىں مىں جاسکتا ہوں۔ مىں نے عرض کىا والد صاحب خود تشرىف لائىں گے۔ ان کى ىہى مرضى ہے۔اور اسى مىں ان کى راحت ہے۔ مَىں حىران تھا حضرت کا تشرىف لانے کا اصرار اور مىرا نہ پر اصرار، لوگ حضرت کى تشرىف آورى کو نعمت غىر مترقبہ سمجھتے تھے۔ بعد مىں جب والد صاحب تشرىف لے گئے احقر بھى ساتھ تھا تو مولانا نے والد صاحب کے سامنے اپنے اصرار کا ذکر کىا اور مجھ سے وجہ پوچھى۔
احقر نے عرض کىا ہمارى مسجد مىں دىوبندى برىلوى جھگڑا رہتا ہے اور مسجد مىں رنگ سبز ہے۔ اور حضرت مساجد مىں سفىد رنگ کو پسند کرتے ہىں۔ وہاں پر حضرت تشرىف لے جاتے تو رنگ پر اعتراض فرماتے جس سے دوسرے لوگ کوئى اىسى وىسى بات نہ کر دىتے۔ حضرت سُن کر مسکرائے اور فرماىا تم اگر ىہ بات مجھ سے کہہ دىتے تو مىں کچھ نہ کہتا اور حضرت کو تکلىف نہ ہوتى۔
حضرت مولانا کے خط کو جب مىں نے پڑھا تو سارا منظر سامنے آگىا اور والد صاحب کے مقام کا انداز ہوا، دل بے چىن ہوگىا، آنکھوں سے آنسو جارى ہوگئے جو رُکتے ہى نہىں تھے۔ مىں نے اپنے بڑے بھائى محمد ہاشم صاحب کو فون کىا اور کہا بھائى! ہم نے اپنے والد کى قدر نہىں کى اور نہ ہى ان کو پہچانا۔