نہىں کرتے۔ احکام شرعىہ مىں فرداً فرداً کا حال حاصل کرنے کىلئے ہر شخص کے لئے راستہ کھلا ہوا ہے۔ اگر کوئى عالم با عمل بننا چاہے تو کوئى مزاحم نہىں ہوتا ىا کوئى تجارت اعلىٰ سے اعلىٰ کرنا چاہے تو اس مىں کوئى مزاحمت نہىں کرتا ،اگر کوئى رشوت نہ لىناچاہے تو کوئى مجبور نہىں کرتا، اگر بدکارى اور شراب خورى کو کوئى چھوڑ دے تو کسى کے نزدىک ىہ جرم نہىں، اگر جہاد کرنے سے پہلے سب مسلمان متبع سنت ہوجائىں تو کىا مانع ہے۔ جب مسلمان ہى نفس کى مخالفت پر راضى نہىں تو اﷲتعالىٰ کى مرضىات کا ترتىب کىسے اور کس طرح ہوگا کہ جن کوتاہىوں کى اصلاح مىں ہم کو قدرت حاصل نہىں اﷲتعالىٰ ان پر بھى ہم کو قدرت عطا فرمائىں۔اور اس سے پہلے اسى بادشاہ ىا جماعتِ علماء سے ىہ درخواست کرتا ہے کہ جہاد کا فتوى دے دو ۔ اىسا ہے جىسے کوئى اپنے باپ اور اپنے باپ کے دوستوں سے ىہ التجاء کرے مىرا کسى حسىن عورت کے ساتھ نکاح کر دو۔ تو ظاہر ہے کہ جو اس نکاح کا نتىجہ ہوگا۔
اﷲتعالىٰ اور رسول نے بہت سے باتوں کا اعلان کىا ے جو اوامر و نواہى شرعىہ کے جاننے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر وسىع اعلان ہے۔ مگر کىا مسلمان اس اعلان پر لبىک کہتے ہوئے اور سر جھکائے ہوئے اﷲاور رسول کى طرف چلتے ہىں ىا نہىں؟ مگر علماء اور سبھى سے ىہ امىد رکھى جاتى کہ حضرت صحابہ مجتہدىن جىسے ىہ کىوں نہىں ہوئے۔تو کىا کسى شخص نے اپنے نفس سے بھى ىہ مطالبہ کىا ہے ان حضرت کے متبعىن جىسے تھے ہم اىسے کىوں نہىں۔
کام کرنے کا اعلىٰ سبق
جو مطالبہ اقامتِ دىن کا بحىثىت اجتماعى بادشاہوں سے کىا جاتا ہے وہ مطالبہ بحىثىت