جواب مندرجہ ذىل دىا گىا:
عزىزم مىاں اسماعىل صاحب
السلام علىکم و رحمۃ اﷲوبرکاتہ!
مىں کسى کو مشورہ تو دىا نہىں کرتا کىونکہ آج کل جو کچھ کوئى کرتا ہے ىا اپنى رائے سے کرتا ہے ىا جس طرف کو بہت سے آدمى چل دىتے ہىں اس رَو مىں ہر شخص چل دىتا ہے۔ اﷲ،رسول،اﷲوالوں کى کوئى اتباع نہىں کرتا۔ اس لئے مىں مشورہ تو دىتا نہىں لىکن آپ کو ىہ بتلائے دىتا ہوں کہ مَىں اپنے لئے باوجود ان باتوں کے کہ نہ مىں ملازم ہوں اور نہ مىرے پاس کوئى خزانہ ہے نہ کوئى دوکان ہے نہ مىں نے زمىن لى نہ ملى نہ مىں نے کوئى مکان لىا نہ ملا ۔ اور ظاہر ہے کہ مىں اور مىرى بىوى اور بچى ہم تىنوں کى حاجتىں برابر لگى ہوئى ہىں اور نہ مىرے پاس کوئى مىرى برادرى اور وطن کا آدمى ہے، اکىلا ہوں جىسے جان پہچان تم لوگوں سے ہے اىسے ہى ڈاکٹر صاحب سے ہے ۔ اتنا فرق ہے ڈاکٹر صاحب کو مىرے ساتھ محبت ہے اور آپ لوگوں کو نہىں ۔ ان سارى باتوں کے باوجود اگر ہندوستان کى حکومت مجھے من مانى مرادىں دے دے اور ىہاں کچھ تکلىفىں بھى ہوں جىسى کہ کم و بىش اس وقت سب کو پىش آرہى ہىں تو مىں ہرگز نہ کفار کا ممنون احسان ہونا چاہتا ہوں اور نہ رعاىا بننا چاہتا ہوں۔ ىہ حکومت چاہے کتنى ہى بُرى ہو اور ىہاں کے مسلمان چاہے کتنے ہى خراب ہوں جب تک ىہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہىں گے اپنے لئے انہىں مىں رہنا پسند کرتا ہوں۔